چلو ایک مشغلہ ہے۔دنیا اس میں مصروف ہے۔ ایک انٹر ٹینمنٹ ایک تفریح ہے۔مگر ہم تو ہر مشغلہ کو مسئلہ بنا دیتے ہیں۔فرصت کے دن رات میں کوئی نہ کوئی کھیل تماشا لگا رہتا ہے۔ ہر معاشرے کے شہریوں نے اپنی فرصت کے لمحات کو اپنی طرح انجوائے کرنے کا شیڈول چاک کیا ہے۔سو برا نہیں۔مگر اس میں برا پہلو اس وقت داخل ہوتا ہے جب ہم کسی کھیل کو اپنے اور دوسروں کے جانی نقصان کے کھیل میں تبدیل کرتے ہیں۔تب وہ کھیل نہیں رہتا۔ہمارے ہاں ایسے کئی کھیل تماشے ہیں جن میں خود ہماری جان داؤ پر لگ جاتی ہے۔پھر ہم اس سے بچتے بھی تو نہیں۔اپنا دامن خوب اور من ٹھار طریق سے اپنے ہی خون سے رنگین کرتے ہیں۔پھر اس پر ڈھٹائی یہ کہ خوشیاں مناتے ہیں۔اس خطرناکی کو دل سے محسوس کر کے بھی انجان بن جاتے ہیں۔نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے کی جانوں سے بھی کھیلتے ہیں۔مگر ہمیں منع بھی کون کرے۔ہے کوئی جو اس میدان میں سامنے آئے۔ ہمارے اوپر پابندیاں بھی لگتی ہیں مگر ہم کسی بندش کو کہاں مانتے ہیں۔الٹا اس بین کو بھی انجوائے کرتے ہیں۔ہمارے دل میں یہ ہوتا ہے کہ ہم پابندی کے باجود ایک مشغلہ سے لطف لے رہے ہیں۔اس سوچ میں ہمارے مزہ میں نشہ زیادہ ہو جاتا ہے۔سرور دوبالا ہو جاتا ہے۔اب پتنگ بازی ہے۔پھر کون سی بازی نہیں ہے۔ہر قسم و قماش کی بازی بلکہ بازیاں کھیلی جاتی ہیں۔ تاش بازی سے لے کر کبوتر بازی تک درجنوں کھیل اور تفریحات ہیں جن سے لطف اٹھانا ہمارا کام ہے۔مگر جب ہم حدسے گذرنے لگتے ہیں تو ہمارے اوپر سرکار کی جانب سے پابندی لگ جاتی ہے۔ پھر ہمارے تشدد پسند او رانتہا پسندانہ رویہ کو دیکھ کر ایک نہیں دو او ر پھر دو نہیں دو دو چار بندشیں عائد ہو جاتی ہیں۔جن کو ہم نے نبھانا ہوتاہے۔ مگر ہم نے اس کو دل ودماغ جگہ بھی کہا ں دینا ہوتی ہے۔ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے ہیں۔یوں کہ جیسے کبوتر اڑانے والا اپنے گھر کی چھت پر دیواروں سے ایک ہُو کی آواز نکال کرکبوتر اڑا کر مزہ لیتا ہے۔ پھر وہ حضرات کہ پتنگے اڑتے ہوئے موسم میں کہ چیونٹیوں کو بھی پر لگ جائیں پتنگ بازی میں ملوث ہونے کو اولیت دینے لگتے ہیں۔ پتنگ بازی ایک امن کا شغل تھا۔ ہم نے بھی کافی عرصہ گڈیاں اڑائی ہیں۔ ان کنکوے اڑانے میں اپنا سا مزہ ہے۔جیسے کبوتر بازی عادت کی دنیا سے نہیں جاتی اسی طرح گڈی بازی کی دنیا سے یہ عادت نہیں جاتی۔ یہ شریف لوگوں کا مشعلہ تھا۔ جو اپنی فرصت میں مشغول رہنے کے لئے اور اپنی بوریت دور کرنے کو اس سے کام لیتے۔ مگراب یہ جرم قرار دیا گیا ہے۔کیونکہ ہم نے اپنی حد پھلانگ دی ہے۔جو چھوٹ ہمیں ملی ہوتی ہے۔ہم اسی کو کمان میں جڑ جڑ کے تیر مارتے ہیں۔اتنا کہ خود ہمیں اس کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔جب سے اس شغل میں کیمیکل ڈور نے انٹری دی ہے۔کتنی جانیں تو سرِ راہ چلتے چلتے چلی گئیں۔بچے نوجوان بائیک پر جاتے ہوئے سڑک پر سے اُس راہ پر ہو لئے جہاں سے واپس اترنے کی سیڑھی دورپھینک دی جاتی ہے۔اس شغل کے لئے بھی تو ایک موسم مخصوص ہے۔پتنگ بازی تو ہمارے ہاں صدیوں سے رواج میں ہے۔اب تو پتنگ فروخت کرنے والے بھی مجرم کہلائے گئے اور کنکوے اڑانے والے بھی ملزم ٹھہرائے گئے۔ وجہ وہی کہ اس کھیل کو کھیل نہیں سمجھا گیا اس کو مشغلہ نہیں جانا گیا۔وہ کھیل بہت سے ہیں جن میں جاں کا نقصان ہوتاہے یا اچانک ہو جاتاہے۔سو یہ کھیل ان کھیلوں کے اوپر ایک اور کھیل سہی۔ہم زیادہ ہی فارغ لوگ ہیں۔ وہ تو جب فارغ ہوتے ہیں خلا کی جانب جہاز اڑاتے ہیں اور مریخ سیارے کی جانب راکٹ اڑاتے ہیں۔چاندپر لنگر ڈالتے ہیں۔مگر ہم تو دوسروں کی پتنگوں پر لنگر ڈالنے والے ہیں۔ سامنے والے گھر سے گڈی ذر ا بلند ہوئی اس پریہاں سے کمند ڈال دی گئی کہ اس کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی مرضی کے مطابق اڑایا جائے۔ہم دوسروں کی پتنگ پر لنگر ڈالنے والے کب اچھے ہوں گے۔تب ہی اچھے ہو سکتے ہیں کہ دوسرے کی آزادی کو بھی اہمیت دیں۔ جب ہم خود کو آزاد سمجھیں اور دوسرے کو اس آزادی کے تحت پابندی کا شکار کردیں تو ہم پر پابندیوں کا لگ جانا تو عام سی بات ہے۔پھر یہ عام سی باتیں تو ہمارے ہاں بہت ہیں۔