واشنگٹن: افغان جنگ میں پاکستان کا جائزہ لینے اور پابندیاں تجویز کرنے کے لیے امریکی سینیٹ میں پیش کردہ بل میں ایک شق ایسی بھی ہے جو صدر جو بائیڈن کو پابندیوں کے خاتمے کا اختیار دیتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس شق میں کہا گیا ہے کہ ’امریکی صدر کسی غیر ملکی شخص کے حوالے سے اس عنوان کے تحت پابندیوں کی درخواست کو معاف کر سکتا ہے لیکن معافی کے نافذ ہونے سے 10 دن پہلے نہیں، اگر مناسب کانگریس کمیٹی کو اس بات کا تعین اور تصدیق کرے کہ اس طرح کی چھوٹ امریکا کے اہم قومی سلامتی کے مفادات میں ہے‘۔
شق میں مزید کہا گیا کہ ’تاہم صدر کو اس تصدیق کے ہمراہ پابندیاں ختم کرنے کی تفصیلی وجوہات جمع کرانی ہوں گی‘۔
یاد رہے کہ 27 ستمبر کو 22 ریپبلکن سینیٹرز نے امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں کابل کے سقوط سے قبل اور بعد میں، وادی پنج شیر میں طالبان کے حملے میں پاکستان کے مبینہ کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی۔
یہ بل ’افغانستان سے جلد بازی میں اور تباہ کن امریکی انخلا‘ سے متعلق مسائل بیان کرتا ہے جس کا الزام صدر جو بائیڈن پر عائد کیا گیا۔
ایسا کرتے ہوئے یہ امریکا اور طالبان کے معاہدے کو نظر انداز کرتا ہے جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے طے شدہ اور دستخط شدہ ہے۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والے ڈیموکریٹس اب تک اس اقدام سے دور رہے ہیں اور وہ اسے صدر جوبائیڈن کے خلاف سیاسی پوائنٹس اسکور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہیں کہ اگر یہ (بل) قانون بن گیا تو اس سے مستقبل میں پاکستان سے بات چیت کی گنجائش کم ہوسکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈیموکریٹس بھی کابل کے اچانک سقوط اور اس دعوے کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان نے عسکریت پسندوں کو مبینہ پناہ گاہیں فراہم کرکے اس میں سہولت فراہم کی۔
تاہم وہ مستقبل کی افغان حکمت عملی پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا آپشن بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے اپنے ملوث ہونے کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور امریکا پر زور دیا کہ وہ افغان فوج اور حکومت کے غیر منظم خاتمے پر توجہ مرکوز کرے۔