اس وقت دنیا کے مختلف علاقوں میں جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ان میں اصل فریق غا ئب ہے اصل فریق کی جگہ اس کے کارندے مختلف ناموں سے یہ جنگیں اصل فریق کی طرف سے لڑ رہے ہیں‘ انگریزی میں ایسی جنگوں کو پراکسی وار (Proxy War) کہا جا تا ہے اردو میں بھی انگریزی کی یہ تر کیب دھڑ لے سے استعمال ہو رہی ہے اگر اردو میں اس کو غا ئبا نہ لڑائی لکھا جائے تو مبا لغہ نہ ہو گا صحا فی، وکلا ء اور دانشور جا نتے ہیں کہ یہ غا ئبا نہ لڑائیاں ہیں اصل فریق با ہر بیٹھا ہوا ہے افغانستان کی 40سالہ خا نہ جنگی میں روس کے 1500 سپاہی مارے گئے‘ امریکہ کے 2800 سپا ہی قتل ہوئے 2لا کھ افغا نی شہید ہوئے 3لا کھ افغا نی عمر بھر کیلئے معذور ہوئے اس جنگ کے جو شعلے پا کستان کی طرف آئے ان شعلوں نے 88ہزار پا کستانیوں کی جا ن لے لی۔ان میں سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ 81ہزار شہری بھی شامل تھے اصل فریقین کا نقصان نہ ہو نے کے برابر ہے‘ اب جو نئی جنگ کے نقا رے بجا ئے جا رہے ہیں اس میں چین اور امریکہ جنگ کے اصل فریق ہیں لیکن میدان میں دونوں غیر حا ضر ہیں‘ جنگ طویل ہو جا ئے تو اصل فریق کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ ایسے لو گ متا ثر ہونگے جن کا اس جنگ میں کوئی مطلب نہیں کوئی مقصد نہیں کوئی مفاد نہیں۔پرائی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلا س سے لوگوں کو بہت سی اُمیدیں تھیں اور سب غلط۔ جنرل اسمبلی کے پاس جنگوں کو روکنے اور امن بحال کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے دنیا کی تین طاقتوں کولگا م دینے کا کوئی طریقہ کا ر نہیں دنیا میں جی ایٹ، جی سیون اور جی سکس کے نا م سے ترقی یا فتہ اور صنعتی ممالک کے جو بڑے بڑے گروپ ہیں ان کے مفا دات کو عالمی امن کیلئے خطرہ بننے سے جنرل اسمبلی نہیں روک سکتی۔ سلامتی کونسل دوسرے ممالک پر پا بندی لگا سکتی ہے عالمی طا قتوں پر پا بندی نہیں لگا سکتی۔سلا متی کونسل میں عالمی طا قتوں کو ویٹو کا ہتھیار دیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک کے مفا دات کو زک پہنچنے کا اندیشہ یا احتمال ہو تو وہ ویٹو کے ذریعے اقوام متحدہ کی کسی بھی قرار داد کو جو تے کی نو ک پر رکھ سکتے ہیں سیا ست، جمہوریت، سفارت کاری‘ انصاف‘ قانون اور دستو ر کی کسی کتاب میں ویٹو پاور کی گنجا ئش نہیں۔191مما لک ایک طرف ایک ملک دوسری طرف ہو تو ویٹو کے ذریعے وہ اکیلا ملک اپنی من ما نی کر لیتا ہے۔ 191مما لک میں جن 15مما لک کو سلا متی کونسل میں رکنیت حاصل ہو تی ہے ان میں 14مما لک ایک طرف ہو ں ایک ملک دوسری طرف ہو تو اکیلا ملک ویٹو کی مدد سے کا میاب ہوتا ہے‘ دوسروں کو جمہوریت کا درس دینے والے بڑے بڑے ممالک اقوام متحدہ میں جمہوریت کو داخل ہونے نہیں دیتے اگر اقوام متحدہ میں جمہوریت آگئی تو پرا کسی وار یا غائبانہ لڑا ئی کی گنجا ئش نہیں رہے گی جمہوریت کسی ملک کو اجا زت نہیں دیتی کہ دس کھرب ڈالر کما نے کے چکر میں غریبوں کو لڑا ؤ اور ان کی لڑا ئی سے ما ل کما ؤ۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے اصو لوں کو آخر کیوں نہیں اپنا یا جا تا؟ کب تک دنیا کے مظلوم‘ غریب اور نادار مما لک بڑی طا قتوں کی غا ئبا نہ جنگ کا ایندھن بنتے رہیں گے؟ کب تک دنیا میں بڑی طا قتوں کے مالی مفا دات کیلئے غریبوں کا خو ن بہا یا جا تا رہے گا؟ اس نا انصا فی اور ظلم کے خلا ف مو ثر آواز اُٹھانے کیلئے دنیا کے تر قی پذیر ممالک کو تنظیم بنا نی چا ہئے جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں تیسری دنیا کا فورم مظلوموں کیلئے آواز اٹھا تا تھا اس لئے مو جو دہ حا لا ت میں پرا کسی وار یا غا ئبا نہ لڑ ائی کو ختم کر کے مظلوم عوام کو انصاف دینے کیلئے ویٹو پاور کو ختم کرنے کی تجویز پر بھی مو ثر لا بنگ ہونی چاہئے‘کیونکہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاورنے دنیا میں امن کی بجائے جنگ اور بدامنی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور عالمی طاقتوں کو جہاں بھی اپنے مفادات خطرے میں نظر آتے وہاں انہوں نے پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگایا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سلامتی کونسل کو استعمال کیا جس سے ہر دور میں دنیا کا امن تہہ و بالا ہوا اور اس کا فائدہ عالمی طاقتوں نے اٹھایا۔