پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چار سے آٹھ روپے اضافے کے علاؤہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث مہنگائی میں اضافے پر اضافہ ہوا ہے۔حکومت کے بقول ”ملک میں مہنگائی کی لہر عارضی ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر کام کی رفتار تیز ہونے سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں جلد کمی ہوگی۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر سپلائی چین کا نظام متاثر ہونے کے نتیجہ میں غذائی مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں۔“ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وبا کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی فراہمی کا نظام متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت مصنوعی طریقے سے مہنگائی میں اضافے کرنے والوں گروہوں (جنہیں وہ خود مافیا قرار دیتی ہے) کے خلاف خاطرخواہ کامیابی حاصل کرتی تو صورتحال قدرے بہتر ہو سکتی تھی۔ رسد کا نظام اپنی جگہ متاثر ہے جس سے کسی شے کی قیمت میں اگر پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے تو مختلف مافیاؤں نے ’ناجائز منافع خوری‘ کیلئے اس میں کئی گنا اضافہ خود کرلیا ہے اور حکومت ان مافیاؤں کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اگر حکومت ان مافیاؤں پر قابو پا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ قیمتوں کو قابو نہ کیا جاسکے لیکن ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ان مافیاؤں کی سرپرستی کرنے والے بہت سے عناصر ہمارے نظام کا حصہ ہیں اور ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اگرچہ عوام کی جانب سے ردعمل سامنے نہیں آ رہا لیکن …… بے روزگاری‘ غربت اور مہنگائی …… پریشان کن اُور صبرآزما ہے کیونکہ اِس میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے! ا س میں کوئی شک نہیں کہ”کرپشن فری معاشرے“ کی تشکیل کیلئے بے لاگ اور بلاامتیازاحتساب کا عمل ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ عوام کی مشکلات دور کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جو حکومت کے لئے بڑا اُور کھلا چیلنج ہے۔ ممکن ہے کہ وفاقی حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہو لیکن لیکن اگر عملاً قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی تو ایسے اقدامات کے ہونے یا نہ ہونے سے عوام کو فرق نہیں پڑتا‘ جنہیں قیمتوں میں کمی کی صورت ریلیف چاہئے۔ جنہیں قیمتوں کے کم سے کم ایک سال تک قائم رہنے کی صورت ریلیف چاہئے۔ جنہیں روزگار اور آمدنی میں اضافے کی صورت ریلیف چاہئے۔ جنہیں خودروزگار اور سرمایہ کاری کے لئے حکومت کی سرپرستی جیسا ریلیف چاہئے‘ جنہیں موثر احتساب کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے والا ریلیف چاہئے اور دیکھا جائے تو وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق حکومت کے پاس اب یا کبھی نہیں والی حالت ہے۔ یہ درست ہے کہ عالمی سطح پر کساد بازاری کے اثرات سے یکسر نجات پانا ممکن ہیں مگر عوام کو ریلیف دینے کیلئے اگر اب بھی کوشش کی جائے تو کسی نہ کسی حد تک یہ مقصد حاصل ہوپائے گا اور عوام یقینا ایسے اقدامات کو سراہیں گے بھی جن کی مدد سے ان کو ریلیف یا آسانی فراہم کی گئی ہو۔