مسلمان‘ بھارتی آئین اور مودی حکومت

بھارت کے آئین میں مذہبی آزادی کی ضمانت دفعات 25-28 میں دی گئی ہے۔ مگر بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں مسلمانوں کے حوالے سے اپنے ملکی آئین کی دھجیاں اُڑا رہی ہیں اور بھارت پھر بھی دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔پچھلے دنوں بھارت میں انتہا پسند گروہ ہندو سینا کے کارکنوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کے دہلی کے انتہائی محفوظ علاقے میں واقع گھر پر دھاوا بولا، تھوڑ پھوڑ کی اور ان کے ملازم کو زخمی کیا۔ ہندو سینا کے ریاستی صدر کے مطابق کارکن اویسی کے مسلسل ہندو مخالف بیانات پر انہیں سبق سکھانے گئے تھے۔ خوش قسمتی سے اویسی گھر پر نہیں تھے۔ کلہاڑیوں اور لاٹھیوں مسلح یہ کارکن ان کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ اس سے پہلے بھی دوبار ان کے گھر پر حملہ کیا جاچکا ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 25 الف کے تحت ہر بھارتی شہری کو آزادی ضمیر، اور آزادی سے کوئی بھی مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق حاصل ہے بشرط یہ کہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ وغیرہ متاثر نہ ہوں۔ مگر اس کے باوجود اکیس ستمبر کو اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کے اشارے پر پولیس نے تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت 68 سالہ بھارتی مبلغ مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیا۔ عدالت نے انہیں پانچ اکتوبر تک پولیس تحویل میں دے دیا۔ پولیس نے اس قانون کے تحت اب تک مولانا صدیقی سمیت 11افراد کو گرفتار کیا ہے جو اب تک جیل میں ہیں۔ پولیس کے مطابق مولانا اور دیگر ساتھیوں کے خلاف ابھی تک کسی شخص نے خود جبری تبدیلی مذہب کی شکایت درج نہیں کی ہے۔ کوئی اگر اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کیلئے کسی عالم کے پاس آئے اور وہ اس کی مدد کرے تو یہ کیسے اور کیوں کر جرم سمجھا جاسکتا ہے۔ مولانا کلیم صدیقی گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر بھی ہیں اور وہ تعلیمی خدمات انجام دینے کے ساتھ سماجی ہم آہنگی اور نو مسلموں کی سہولت کاری اور آبادکاری کا کام کررہے ہیں۔ اس کام کی اجازت انہیں بھارتی آئین نے دی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کے لاکھوں عقیدت مند اور ان کے یوٹیوب چینل کے ایک لاکھ پیروکار ہیں۔ بھارتی حکومت کو خوف ہے کہ اگر ایسے مسلم مبلغین کی تبلیغ جاری رہی تو مسلمانوں کی تعداد جلد ہندوؤں سے بڑھ جائے گی۔ واضح رہے بھارتی حکومت نے اس سے پہلے مشہور مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک پر بھی پابندی لگائی تھی۔ دوسری طرف بھارتی سکولوں میں بلا تفریق سب کو ہندو دھرم بلکہ برہمن ازم کے عقائد اور شخصیات کے بارے پڑھایا جاتا ہے۔بھارتی آئین اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے مگر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری ملک گیر مظاہروں میں حصہ لینے والوں پر غداری کے مقدمے قائم کیے گئے جبکہ ایک جرمن طالب علم اور ناروے کی ایک سیاح کو بھارت سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ غربت کی وجہ سے مسلمان انڈیا میں پہلے ہی مسائل کا شکار تھے مگر جب سے بی جے پی کی صوبوں اور مرکز میں حکومتیں قائم ہوئی ہیں مسلمانوں کے مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ این آر سی، مسلم نجی قانون میں تبدیلی، گا کشی کی مہمات مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں اور ہندوتوا کو سرکاری پالیسی بنانے کی وجہ سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے مطابق دلت، مسلم اور قبائل یہاں انسان ہی نہیں سمجھے جاتے جبکہ معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے بقول بھارت میں مسلمانوں کیلئے صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے۔مودی حکومت کے دو چہرے ہیں۔ ایک دنیا کیلئے جس میں وہ خود کو انتہاپسندی کے خلاف جنگ کا سپاہی دکھاتا ہے اور دوسرا اصلی چہرہ اندرون ملک نظر آتا ہے جس میں وہ ملک کے اندر انتہاپسندی کا پرچارک اور حمایتی ہے۔ بھارتی حکومت مسلمانوں کی مذہبی، سیاسی اور معاشی آزادی کو یقینی بنائے یا پھر سیدھی طرح اعلان کردے کہ وہ مسلمانوں کو یہ حقوق نہیں دینا چاہتی بھارت کے متنازعہ شہریت قانون میں ترمیم کرکے چھ پڑوسی ملکوں سے ہندوؤں اور سکھوں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کی سہولت دی گئی مگر مسلمان اس سہولت سے محروم کردیئے گئے۔ اس کے بعد مختلف ہندوستانی ریاستوں میں قومی رجسٹریشن کی مہم شروع کی گئی جس کے ذریعے ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوجانے والے یا بنگلہ دیش سے دہائیوں قبل ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں افراد کی شہریت منسوخ یا معطل کی گئی۔بی جے پی کے سرکردہ رہنما سبرامنیم سوامی نے ایک غیر ملکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے ببانگ دہل مسلمانوں کو ہندوؤں کے برابر کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے ووٹ کا حق چھین لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔پچھلے سال کی طرح اس سال بھی امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مسائل، ان سے بدترین سلوک اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی پر ہندوستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی مگر اس کمیشن کی جانب سے زمینی جائزہ لینے کیلئے ویزے کی درخواست بھارتی حکومت نے مسترد کردی۔ اس کا امکان کم ہے کہ امریکہ اپنے اتحادی بھارت کے خلاف کوئی سخت اقدام اٹھائے گا۔انسانی آزادی اعشاریہ 2020 کے مطابق بھارت کا جمہوریت اور آزادی کا درجہ94سے گر کر111 ہو گیا ہے‘2021 میں عالمی پریس آزادی اعشاریہ نے بھارت کو 180ممالک میں 142واں درجہ دیا ہے۔قانونی طور پردلتوں پر اسلام کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔ واضح رہے 2005 میں جسٹس راجندر سچرکمیٹی اور بعد میں جسٹس رنگناتھ مشراکمیشن نے مسلم اورعیسائی دلتوں کو بھی مخصوص مراعات والی نچلی ذاتوں میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔ بھارتی آئین میں دلت وہ لوگ ہیں جو بہشتی، موچی، دھوبی وغیرہ جیسے سو کے قریب پیشوں میں سے کسی ایک سے روزی کماتے ہیں‘ بھارت میں بی جے پی کی مرکزی اور علاقائی حکومتوں کو شاید اسلام، مسلمانوں اور پاکستان بارے نفرت انگیز سیاست سے فائدہ پہنچے لیکن اگر اس کی وجہ سے بھارت کی عالمی ساکھ خراب ہوجائے، بھارتی سماج کا امن تباہ ہوجائے اور ایٹمی خطہ میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں تو پھر کیا ہوگا‘ عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ جہاں باقی ممالک میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کے مطالبات سامنے آرہے ہیں تو بھارت کو اس سلسلے میں کیوں کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور کوئی بھی عالمی ادارہ یہ نہیں دیکھتا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں نے اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔