روٹی کا سوال ہے 

اب تو لوہے کے چنے چبانے کا محاورہ جو عام زندگی میں محال تھا آسانی سے عملی زندگی میں تبدیل ہو سکے گا۔ کیونکہ اب تو لوہے کے دانت بنیں گے۔پھر کوئی سخت چیز ہو جو دل چاہے کھاؤ۔کیونکہ معاملات جب خراب ہونے لگتے ہیں تو اس کیلئے کوئی نہ کوئی حل سامنے آجاتا ہے۔اب روٹی کو لیں اس کا نرخ ہر علاقے میں الگ ہے۔ مگر خواہ جتنے کی ہو جائے اس کو اسی وقت نوشِ جاں کیا جائے جب تندور سے نکلے۔وگرنہ تھوڑی دیر اور بیتے یہ نرم روٹی ہارڈ بورڈ کی مانند سخت ہو جاتی ہے پھر اور کچھ دیر پڑی رہے تو لوہے کی بن جاتی ہے۔اس کا نوالہ توڑ کر کھانا اپنے ہی دونوں ہاتھوں کے درمیان کھینچا تانی کی صورت ِ حال پیدا کرنا ہے۔مگر یہ حال ایک گلی اور کوچے اور محلے کانہیں۔یہاں تو گلی گلی کوچے کوچے اسی قسم کی حالت ملتی ہے۔تندور والے بیچارے بھی کیا کریں۔ اپنے پاس سے آٹا ایجاد نہیں کر سکتے۔ جو آٹا جس مہنگے نرخ پر ان کو دستیاب ہوگا وہی گوندھیں گے۔اب تو گھرکی روٹی بھی جو اپنے توے پر صحن میں تندوری پر پک جائے سخت ہوجاتی ہے۔تھوڑی دیر بعد چیک کروتو گتے جیسا بن جائے۔پھر علاقہ وار تندور کی روٹی کے نرخ الگ ہیں۔ اندرون شہر میں ایک گھر میں کھانا کھانے کا موقع ملا تو بھاری سی روٹی ملی۔حیرانی ہوئی توپوچھا کہ آپ کے ہاں تو اچھی خاصی اور بھاری بھرکم روٹی ہے۔انھوں نے جواب دیا یہ دس روپے والی نہیں۔یہ پندرہ والی ہے۔پھر دوسرے مقام پر خیر سے جیتے رہیں اپنے کہ کھانا کھلایاتو روٹی زیادہ بھاری تھی۔اپنے سوال کرنے کی عادت کو تسکین بھی تو دینا تھی۔ پھر پوچھاواہ آپ کے ہاں تو روٹی اچھی ہے۔انھوں نے بھی اپنا سا اور ٹکا سا جواب دیا۔کہنے لگے اس لئے کہ یہ بیس کی روٹی ہے۔پھر اچانک اسی بات کو ذہن میں رکھ کر خیال گذرا کہ اب پچیس والی روٹی کا اور مزہ ہوگا اور تیس والی کی تو کیا بات۔ صاحبان ہر جگہ یہی حال ہے۔اب تو دروازے پر آنے والے روٹی نہیں مانگتے۔کیونکہ ان کو بھی معلوم ہے کہ گھروں میں بھی روٹی پکنے کا مزا نہیں۔ وہ بھی ڈائریکٹ آٹا مانگنے لگے ہیں۔یہ الگ بات کہ یہاں وہاں سے اچھا خاصا اکٹھا ہوجائے تو مزید آگے بیچ کر نقدی میں جیب میں ڈال لیں۔ پھر ایسا بھی کہ روٹی نہ لیں آٹا لیں تاکہ گھر میں جا کر اپنی مرضی سے پندرہ یا بیس والی توے پر چڑھا دیں۔پھر بھلے تیس والی ہی ہو۔پھر ان روٹیوں کو چبانے کیلئے تو اب لوہے کے دانتوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔کیونکہ روٹی تو نرم نہ ہوگی۔کیونکہ ہر آدمی اپنے بنائے ہوئے ٹائم ٹیبل کے مطابق کھانا کھائے گا۔مگر تندور کے بندہوجانے کے خدشے کے پیشِ نظر روٹی پہلے سے گھر میں لا کر رکھ دیتے ہیں۔ اب وہ چنگیر میں رکھیں کہ شاپر ہی میں رہنے دیں یا پلاسٹک کے گول ڈبے میں ڈال کر رکھ دیں۔مگر روٹی نے سخت ہوجانا ہے۔ پھر ایسی ویسی سختی۔ایسی کہ اب روٹی سا نوالہ توڑنے کو ہتھوڑی کا استعمال کرنا پڑے اور ضرورت پڑے تو قینچی سے روٹی کے نوالے کاٹ کاٹ کر خود بھی کھانا ہوں گے اور معصوم بچوں کے منہ میں بھی چھوٹے چھوٹے کر کے نوالے ڈالنا ہوں گے۔یا پھر یہ ممکن ہے کہ باریک دانتوں والی لوہے کی آری بھی کھانے کے وقت دستر خوان پر رکھی ہو تاکہ سالن میں ڈبونے کو نوالہ آری کے ساتھ کاٹ کر رکابی کی جانب آگے بڑھایا جائے۔روٹی کو مہنگا کرنے کا معاملہ آئے دن سر اٹھاتا ہے۔مگر کچھ مدت ہوئی کہ یہ لوگ بھی خاموش ہیں اور سرکاری لوگ بھی اب ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔بس شور کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔روٹی کا وزن کم کر دو اور بیچو۔روٹی کو ڈبل کردو اور اس میں سے اپنا چوڑا کاٹ لو اور فروخت کرو۔ جس کی مرضی جس ریٹ پر روٹی کو ڈبل کردے یاوزن کے تیسرے درجے تک بڑھا دے۔وزن بھی کیا خاک ہوگا۔ مریل گھوڑے کی طرح کہ وہ کسی کو کیا ہوا میں اڑائے خود ہوا کے زور پر ہلکا ہوجانے کے سبب اڑنے لگے۔سرکاری سپاہی بھی روز روز ان سے بھڑ جائیں اب ان کے دل کا زوربھی نہیں رہا۔پھر نہ ہی تندور والوں کا وہ دم خم ہے۔وہ بھی اب لڑنے کو آگے نہیں ہوتے۔ کیونکہ ان کے ہاتھ میں یہ گت آ گئی ہے کہ اب فضول کھٹ پٹ سے اچھا ہے کہ وزن کم کردو۔ڈبل کردو یا تین گنا بڑھا کر ایک گنا کم کردو۔بس کام چلے گا بلکہ دوڑے گا اور ساتھ بھاگنے لگے گا۔ایک توانائی سے بھرپور گھوڑے کی طرح کہ سرپٹ دوڑتا چلا جائے۔رکاب میں پاؤں نہ ہو اور ہاتھ میں باگ نہ ہو۔پھر تو اس تازہ تر گھوڑے کو روکنابھی مشکل ہو جائے بلکہ ناممکن ہو۔یہاں تو ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے۔بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کے در پر دستک دی۔ ہم نے کبھی نہ دیکھا کہ ایک چیز اگر مہنگی ہوئی تو وہ آگے چل کے دوسرے حکمران کے دور میں ارزان ہوئی ہو۔بس جو مہنگاہوا وہ مزید مہنگا ہوگا۔کوئی ایسا نہیں آیا کہ گرانی او رہوش ربا گرانی کو ارزانی کے زمانے میں بدل دے۔ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرے خوداگر تکلیف میں ہو مگرعوام کو راحت پہنچائے۔