رائے عامہ

سماجی رابطہ کاری کے وسائل میں سرفہرست ’فیس بک‘ نے صارفین کے رجحانات اور تبصروں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تحقیق کے نتائج جاری کئے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ انسٹاگرام پر معروف شخصیات کی جانب سے جاری کی جانے والی اپنی تصاویر اور دیگر مواد ان کے پرستاروں (فالوروز) کی دل شکنی کا باعث بنتا ہے اور اِن سے منفی رجحانات پھیلتے ہیں۔ فیس بک کا مذکورہ مطالعہ گزشتہ برس (دوہزاربیس) کے دوران امریکہ‘ آسٹریلیا اور برازیل سمیت نو ممالک میں انسٹاگرام صارفین کی آرا بارے ہے اُور اِس تحقیق کے نتائج کو وال سٹریٹ جنرل نامی معروف اخبار نے شائع کیا ہے جو اقتصادی امور سے متعلق حکومتی اقدامات کے اثرات اور غیرحکومتی اقدامات و تجربات پر نظر رکھتا ہے اور اپنے تجزئیات کے حوالے سے عالمی شہرت کا حامل مستند ذریعہ ہے۔مذکورہ تحقیق کے دوران ایک لاکھ انسٹاگرام صارفین سے مختلف سوالات کئے گئے‘ جن میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ کیا وہ معروف شخصیات کی طرف سے جاری ہونے والے مواد (تصاویر‘ ویڈیوز اور تبصروں) کو دیکھنے کے بعد غلط انداز میں سوچتے ہیں یا ان کے ذہن میں منفی اور خطرناک باتیں آتی ہیں؟ ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ انسٹاگرام پر تشہیر ہونے والے مواد کو دیکھ کر وہ اپنی زندگی سے کس قدر مایوس ہوتے ہیں؟ اِس تحقیق میں صارفین کو اُن معروف شخصیات کے نام ظاہر نہ کرنے کا کہا گیا تھا جن کے وہ پرستار ہیں یا جن کی سوشل میڈیا سرگرمیوں سے مستقل آگاہ رہنے کے لئے وہ اُن کو فالو بھی کرتے ہیں تاہم جوابات ملنے کے بعد جب فیس بک اور انسٹاگرام نے جواب دینے والے صارفین کے آن لائن سرگرمیوں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ معروف شوبز شخصیات کے پرستار ہیں اور ان کی طرف سے جاری ہونے والے مواد کو دیکھتے رہتے ہیں۔ مذکورہ تحقیق کے بعد امریکہ کے معروف شوبز شخصیات اور اُن کے اہل خانہ کی آن لائن سرگرمیوں کا مطالعہ کیا گیا جو صارفین کیلئے ذہنی پریشانی اور کوفت کا باعث رہی ہیں اگرچہ مذکورہ نتائج سے یہ واضح نہیں کہ کس طرح معروف شخصیات کو فالو کرنے یا ان کا مواد دیکھنے والے صارفین میں کس طرح کے منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں یا وہ خود کو کس اور کیوں دوسروں کے مقابلہ بُرا (کم تر) محسوس کرتے ہیں؟ تاہم نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ تقریبا تمام معروف شوبز و ٹی وی شخصیات کو فالو کرنے والے صارفین کی سوچ ایک جیسی یعنی منفی ہوجاتی ہے یا ان کے دماغ میں اچھائی کی بجائے بُرے خیالات آنے لگتے ہیں۔ مغربی معاشروں سے متعلق تحقیق پاکستان کیلئے یکساں اہم ہے اور اِس کا مطالعہ حکومتی فیصلہ سازوں سمیت ان سبھی والدین‘ اساتذہ اور سماجی اصلاح کاروں کیلئے دعوت فکر و عمل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان نسل (لڑکے لڑکیوں) کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال معیوب نہیں بالخصوص جب ہم فیس بک اور انسٹاگرام کی بات کرتے ہیں جہاں مشرق و مغربی اقدار کے درمیان تمیز (حد ِفاصل) برقرار نہیں رہتی۔ المیہ ہے کہ کوورنا وبا کے باعث تعلیمی اداروں (سکول‘ کالج‘ جامعات) کی بندش کے دوران تدریس کیلئے انٹرنیٹ اور اِس کے وسائل (سوشل میڈیا) ہی واحد ذریعے کے طور پر سامنے آیا۔ یوں طالب علموں کی بڑی تعداد جو اِس سے قبل سوشل میڈیا سے وابستہ نہیں تھی یا جن کی آن لائن سرگرمیاں محدود تھیں اُن کا بیشتر وقت آن لائن وسائل کا استعمال کرنے کی نذر ہونے لگا۔ تعلیم اپنی جگہ رہ گئی اور طلبہ کی وہ تعداد جو اِس سے قبل روایتی قلم کتاب اور تدریس کے عمومی اسلوب سے استفادہ کرتی تھی اچانک واسطہ پڑنے پر سوشل میڈیا اور آن لائن کھیلوں (گیمز) کی دنیا میں گم ہوگئی کیونکہ کسی بھی مرحلے نہ تو تعلیمی اداروں کی جانب سے اور نہ ہی والدین نے بچوں کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ کا نوٹس لیا‘ جن کے بارے تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اِن کا استعمال کرنے والوں کی قوت ارادی کمزور ہوتی ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے کم تر محسوس کرتے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں مثبت کی بجائے منفی خیالات آتے ہیں اور اُن کی سوچ تعمیر کی بجائے تخریب پر مبنی خیالات کے گرد گھومتی ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی فیشن‘ دوسروں سے بہتر نظر آنے کیلئے مادی وسائل‘ دوسروں کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات‘ اُن کی بول چال کے انداز اور ایسے الفاظ کا استعمال جو مشرقی معاشروں میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے اُن کا استعمال بڑھنا خطرے کی بات ہے اور اگر اِس خطرے کا احساس کرنے میں مزید تاخیر کی گئی تو مستقبل میں بچوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات اُن کے عمل سے ظاہر ہوں گے اور تب اصلاح کی گنجائش بہت کم ہوگی کیونکہ انسانی ذہن کے کام کرنے کا اسلوب یہ ہے کہ اِس میں پختہ ہونے والی سوچ اور عادات آسانی سے تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ حکومت‘ والدین‘ اَساتذہ اور معاشرے کے اصلاح کاروں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات بابت رائے عامہ کو غیرملکی (غیرمتعلقہ) نہیں سمجھنا چاہئے