طوفانِ بد تمیزی

یہ سڑک ہو یا وہ سڑک۔اِس پار ہو یا اُس پار۔ہمارے چاروں اور ایک ابتری کا عالم ہے۔دن چڑھے ٹریفک کی بے ہنگم جلوہ کاریاں جو دیکھنے کو ملتی ہیں وہ رات گئے تک جاری رہتی ہیں۔کسی کل قرار کی سبیل نہیں۔کسی کروٹ چین کی نوید نہیں۔ شہر کو تو جیسے ہنگامہ پرور بے اصول اور شُترِ بے مہار ٹریفک نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ٹریفک کے مستعد اور چاک و چوبند سپاہی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔مگر لگتا ہے کہ نفری کم ہونے کے کارن ان کو بھی سہولت نہیں۔پھر ایک موڑ پر ایک سارجنٹ اور بے تحاشا موٹر سائیکل سوار رکشے اور چنگ چی پھر گاڑیاں سوزوکیاں اور قسم قسم کی ٹریفک کی بد نظمی کا سماں۔ وہ اکیلے ہو کر کس کس کو ہاتھ دیں ایک کو روکیں۔پھر باقیوں کا کیا ہوگا جو بھاگ جائے گا۔اب تو اتنی دلیری ہے کہ ٹریفک پولیس سے کوئی ڈرتا بھی نہیں۔پہلے تو کوئی شہری پورے شہر میں کہیں بھی کسی ٹریفک وردی والے کو دور سے دیکھتا تو وہیں سے واپس مڑ جاتا۔کیونکہ اس کے پاس اپنی گاڑی کے کاغذات مکمل نہ ہوتے۔ ٹریفک پولیس کا اتنا ڈر تھا۔ مگر اب کے تو اتنا رش ہے کہ یہ پا پیادہ سپاہی بیچارہ کلاشنکوف کو کاندھے پربوجھ کی صورت لٹکا کر خود پریشان ہے۔ اب وہ اس بھاری وزن کے ہتھیار کو سنبھالے یا خود کو اس ہنگام سہارا دے۔پھر وہ اتنی سمجھ بوجھ رکھے کہ ٹریفک کو کنٹرول کرے۔اب تو ٹریفک کسی کے کنٹرول میں نہیں۔حتیٰ کہ دوپہر کے وقت جب سکولوں سے چھٹی کے ہنگامے ہوں تو سکولوں کے پی ٹی ماسٹر خود باہر نکل کر روڈ پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے لگ جاتے ہیں۔کیونکہ درجنوں گاڑیاں سکولوں اور کالجوں کے باہر سڑک پر دھرنا دیئے کھڑی ہوتی ہیں۔جو سکول کے بچوں کے لینے آئی ہوتی ہیں۔بچوں کا الگ سے ہجوم ہوتا ہے۔ایسے میں سڑک پر ٹریفک کے نظام کو کنٹرول کرنا جان جوکھم کاکام ہے۔پھر اس موقع پر سکول کی اپنی وین اور بسیں بھی ہوتی ہیں جو راستوں پر پر قبضہ کرلیتی ہیں۔پوری سڑک میں سکول کی ایک بس ہی فٹ آجاتی ہے۔جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل اور رکاوٹ پڑ جاتی ہے۔ پھر یہ سکول بھی تو اب ٹائم کے لحاظ سے مختلف اوقات میں بچوں کو چھٹی دیتے ہیں۔سو دن گیارہ بجے سے لے کرشہر کی تمام بڑی سڑکیں ٹریفک جام کی سی کیفیت میں جلنے لگتی ہیں۔پھر کوئی سڑک بھی تو خالی نہیں رہتی۔ہر جانب اسی طوفانِ بد تمیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  سکول کا پی ٹی ماسٹر اپنی چھڑی ہاتھ میں ٹکائے سیٹی پہ سیٹی بجاتا ہے۔ایک ہاتھ سے گاڑیوں کی ایک لائن کو روکتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے دوسری لائن کو جانے دیتا ہے۔مگر معاملہ سلجھنے کے بجائے روز بروز الجھتا چلا جا رہاہے۔پھر قریب قریب کوئی امید نہیں کہ یہ نظام درست ہو پائے۔جب سے دیکھ رہے ہیں یہی بھیڑ بکریوں جیسے ریوڑ ہیں کوئی کہاں کوئی کہاں جا رہاہے۔نہ تو پیدل والوں کے اصول ہیں اور نہ ہی گاڑیوں والے کسی ضابطہ کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں۔یہ طوفان گیارہ بجے سے شروع ہو کر دو بجے تک شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔آگے ہی شہری پریشان ہیں۔پھر ایسے میں کوئی اگر اپنے کام کاج سے بھولے بھٹکے اگر سڑک پر آ رہے تو بس اس کی جیسے لاٹری نکل آتی ہے۔اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔کہاں جانا تھا اور کہاں آگئے۔اس طوفان کے تھپیڑے ایسے پڑتے ہیں کہ بندہ کو اپنی سمت کا تعین کرنے میں اور اپنے رستے کو ناپنے میں از حد دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شارٹ کٹ اور گلیوں میں سے موڑکاٹ کر اپنا راستہ نکالنا پڑتا ہے۔لیکن اس شارٹ کٹ میں اور کسی گلی کوچے میں سے ہوکر نکلتے وقت بھی اگر وہاں ٹریفک جام ہو جائے تو بندہ اپنے آپ کو کوسنے دیتا ہے۔دندناتی ہوئی سکو ل کی بسیں پورے اندرونِ شہر بھی ہنگامہ برپا کرتی ہیں۔پھرمصیبت یہ کہ بسوں کے ڈرائیورڈیوٹی انجام دے کر چھٹی کرنے کی جلدی میں ڈرائیونگ میں تیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔شہرو ں کے اندر تنگ سڑکوں پر گاڑیاں تیزی سے بھگاتے ہیں جیسے چور کے پیچھے پولیس لگی ہو۔بس کے اوپر ٹیلی فون نمبرلکھا ہوتا ہے کہ عوام کسی شکایت کی صورت میں اس نمبر پراطلاع دیں۔ مگر کون فون کرتا ہے اور فون کرلو توکون اس شکایت پر عمل کرتا ہے۔عوام بھی گذرے سالوں سے بے حسی کا شکار ہوچکے ہیں۔انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ اگر احتجاج بھی کریں تو کچھ نہیں ہوگا۔ احتجاج سے اگر کچھ ہونا ہوتا تو سب سے پہلے بجلی ہی اس شہر میں فراواں ہوتی۔اب تو انھوں نے ٹائر بھی جلانا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو یہ اندر اندر کڑھتے ہیں اور اپناجی جلاتے ہیں۔یہ لوگ ایک سڑک کو تو پامال نہیں کرتے۔ایک سڑک کو تو روند کر نہیں جاتے۔ ان کی کارستانیوں سے ہر سڑک غیر محفوظ ہے۔ ہر طرف یہی اودھم مچا ہوا ہے۔ کسی طرف سے ٹھنڈی ہوا نہیں آتی۔الٹا دھوئیں اور حبس کی وجہ سے گرم سانسوں سے حبس کی لہریں شہر کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔