پینڈورا پیپرز:…دامن کو ذرا دیکھ

 دنیا کی بڑی‘ نامور اور اہم شخصیات کے مالی امور سے متعلق صحافتی تاریخ کی سب سے بڑی تحقیق ”(محاوراتی) پنڈورا پیپرز“ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ مذکورہ تحقیق کی تیاری کے لئے 117ممالک سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ سو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اداروں اور دنیا بھر کے چھ سو سے زائد رپورٹرز نے حصہ لیا۔ ابتدائی طور پر پنڈورا پیپرز کے تحت ایک کروڑ بیس لاکھ فائلیں منظر عام پر لائی گئی ہیں جن کے مطالعے اور تصدیق کے بعد ان پیپرز کو تیار کیا گیا ہے۔ ان فائلوں کی جمع آوری میں دو سال لگے۔ ذہن نشین رہے کہ پانامہ پیپرز دوہزارسولہ میں سامنے آئے تھے تاہم اِس مرتبہ انکشافات پہلے سے زیادہ بڑے ہیں اور ان کی تیاری کیلئے جتنی بڑی ٹیم نے حصہ لیا وہ اب تک کی صحافتی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے پلیٹ فارم سے ’پنڈورا پیپرز‘ میں بتایا گیا ہے کہ ہزاروں خفیہ کمپنیوں کے ذریعے سے دنیاکی بہت سی با اثر شخصیات نے کھربوں روپے سمندر پار ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں منتقل کئے۔ قبل ازیں تین اپریل دوہزارسولہ کو ’آئی سی جے‘ نے پاناما پیپرز کے نام سے ایک تحقیق دنیا کے سامنے رکھی جس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 444 تھی اور سوائے پاکستان کے کسی دوسرے ملک کے رہنماؤں نے ’آئی سی جے‘ کی تحقیق و دعوؤں کو غلط‘ بے بنیاد اور اپنے خلاف سیاسی چال و سازش قرار نہیں دیا تھا۔ اِس مرتبہ بھی یہی ہوا کہ جن 700 پاکستانی رہنماؤں کے نام ’پینڈورا پیپرز‘ میں سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا‘ پانامہ لیکس کے دوران یعنی تین اپریل دوہزارسولہ سے لے کر یکم نومبر دوہزارسولہ تک یعنی سات ماہ کے دوران پاکستان بحرانی کیفیت میں مبتلا رہا۔ اس دوران ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم (نوازشریف) کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب نواز لیگی حکومت اپنے اس مؤقف پر ڈٹی رہی کہ وزیراعظم نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی بنیاد پر انہیں استعفیٰ دینا چاہئے۔ ماضی کے پاناما پیپرز میں چار سو سے زیادہ پاکستانیوں کے نام تھے جبکہ تین اکتوبر (پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے نو بجے جاری ہونے والے) پنڈورا پیپرز میں پاکستانیوں کی تعداد سات سو سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔  ان پیپرز کے منظر عام پر آنے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک اہم اور نامور شخصیات کے مالی معاملات سے متعلق نئی بحث شروع ہوگئی ہے اور اس وجہ سے کئی بڑے لوگ اسی طرح بہت سے مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں جیسے دوہزارسولہ میں شریف خاندان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ آج تک پاکستانی عوام کی نظروں اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت اور ساکھ بحال نہیں کر سکے ہیں۔ پاکستان  جن کو عزت دیتا ہے لیکن یہ جواب میں پاکستان سے اپنا سرمایہ بیرون ملک لے جاتے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے آف شور کمپنیاں بنا کر سرمایہ خفیہ رکھتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ”آف شور کمپنی“ ایسے ادارے کو کہا جاتا ہے جس کے مالک کسی دوسرے ملک میں رہتے ہوئے سرمایہ کاری کریں۔ عام طور پر ایسی آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے قوانین و ضوابط اور حکومت کے خوف سے آزاد رہ کر کاروبار کیا جاسکے کیونکہ اپنے ملک میں سیاسی مخاصمت یا کسی بھی اور وجہ سے کمپنی کے مالک کو کاروباری معاملات کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا ایک اور مقصد کسی دوسرے ملک کی ٹیکس کی رعایت یا نرم قوانین سے فائدہ اٹھانا یا اپنے ملک کے ٹیکس کے سخت قوانین سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق آف شور کمپنیاں قائم کرنا جرم نہیں لیکن انہیں قائم کرنے والے افراد نے باقاعدہ طور پر اپنی ٹیکس گوشواروں اور اثاثوں کی تفصیلات میں یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے اندرون یا بیرون ملک فلاں فلاں کمپنی میں کس قدر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستان جیسے غریب اور بال بال قرضوں میں جکڑے ملک سے تعلق رکھنے والے جب آف شور کمپنیاں بناتے ہیں اور اِس طرح کی خفیہ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ان سب کا مقصد ایک نہیں ہوتا اور نہ ہی سب اپنی کمپنیوں کی تفصیلات خفیہ رکھی جاتی ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ کسی کی آف شور کمپنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص یا خاندان مجرم ہے غلط فہمی ہے تاہم جن افراد اور خاندانوں نے ملک سے پیسہ چوری کر کے اور لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنائی ہیں ان کی تفصیلات کو اس وجہ سے چھپایا ہے کہ ان کی چوری اور لوٹ مار منظر عام پر نہ آسکے ان کے خلاف کردار کشی نہیں بلکہ بہرطور قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں سرمایے کی کمی نہیں تاہم یہ سرمایہ یہاں پر تعمیر و ترقی کی بجائے دیگر ممالک کے بینکوں میں مقید ہو جاتا ہے اور وہاں پر آف شور کمپنیوں کی صورت میں ان ممالک کے لئے تو سود مند ہے تاہم پاکستان کے لئے یہ کسی فائدے کا نہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے موثر اور مربوط اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا تدارک کیا جا سکے اور جس قدر جلدی اور تیزی کا مظاہرہ کیا جائے اتنا ہی قدر بہتر ہے موجودہ مشکل معاشی حالات میں ایسے اقدامات کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔