دال مسور

آج کل غریبوں کیلئے دال مسور سے بہتر کوئی کھا جا نہیں۔ بلکہ جن کو روٹی تک میسر نہیں ان کیلئے تو یہ ڈش ایک عیش کی طرح ہے‘اس کو پانی والی دال بھی کہتے ہیں۔جتنا پانی ڈالو اتنا کھاتے جاؤ اور بانٹتے بھی جاؤ۔بھوک مٹاتی ہے کام چلاتی ہے۔جتنی نفری زیادہ ہو پروا نہیں۔ خشکے کے اوپر ڈال کر کھانے میں تو اور ہی مزہ ہے۔سفید چاول اور دال واہ واہ ۔چونکہ غریبوں کے ہاں کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں سو ان کیلئے آج کل تو خاص طور پر یہ خوراک انتہائی موزوں ہے۔جہاں جہاں آدمیوں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں وہاں خوراک ضرور کم پڑے گی۔ سو وہاں دال کا آئٹم چلادینے میں کوئی حرج نہیں۔اب آپ خود محسوس کریں جیل میں دال روٹی تقسیم کی جاتی ہے۔قیدی زیادہ ہوتے ہیں۔بس پانی اور ڈالو پھر قیدیوں میں تقسیم کرو۔اس میں نوالے کوٹ کر کھاؤ اس کا الگ سے مزا ہے۔پھر اگر اس پر گھی کا تڑکا لگا کر گھر میں کھائیں تو پُر عیش کھانا بن جاتا ہے۔پھرسونے پہ سہاگہ یا ایک پنتھ دو کاج یا ایک تیر سے دو شکار کہ سبز مرچیں تلی ہوئیں ساتھ میں دال میں ڈال دیں۔ اب لیں اس کالطف۔ اس کا وہ مزا ہے کہ  بندے کو اگر یہ دال میسر نہ ہو اس کی طلب میں جیل جانے کو تیار ہو جائے۔پاگل خانے تک میں دال ملتی ہو تو بندہ اس کیلئے پاگل ہو جائے۔خشکہ یا سفید چاول کہہ لیں علامہ اقبال کو بھی بہت پسند تھے۔ اب معلوم نہیں کہ وہ ان پر دال مسور ڈال کر کھاتے تھے یا نہیں۔ ویسے اگر ڈالتے ہوں تو چاول بہت لطف دیتے ہوں گے ہم نے مدتوں تک اس دال کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔گھر میں پکتی تھی اور کھاتے ہوں گے گھروالے مگر ہم یہ ڈش تناول نہ فرماتے۔کیونکہ باپ کماتا تھا۔ ہم ضد کر کے یہ دال نہ کھاتے کیونکہ دال کے سامنے جلے ہوئے گوشت کو ہزار گنا اچھا سمجھتے تھے۔مگر اب تو دال مسور بھی ہم دل دے کر کھاتے ہیں۔ ہم  نے سستی ترین دال نہ کھائی اور اب وہی دال مسور مہنگی حالتوں میں کھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔کھائیں گے کیوں نہیں کھائیں گے ہم کھائیں گے۔کیونکہ پندرہ دنوں میں دال ایک سو چالیس سے ایک سو اسی پر پہنچی ہے۔پھر ساٹھ اور اسی کی کلو دال بھی تو کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے۔اب باقی چیزوں کے ریٹ نہیں بتلا سکتے کہ کون سی چیز چند دنوں میں سینکڑوں روپوں مہنگی ہوئی۔جانے دیں۔دل خفا کرنے والی بات ہے۔اگلے کا دل ناراض ہو ہم نہیں چاہیں گے۔اس دال کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ جتنی مانگو اتنی ملتی ہے۔مجھے تو اچانک یہ خیال آنے لگا ہے کہ اگر یہ دال بھی نہ ہوتی تو غریبوں کا آخری سہارا بھی چھین لیا گیا ہوتا۔