شاعر توقیر عباس نے کہا تھا کہ ”وقت کر دے گا فیصلہ اِس کا …… کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔“ اور پاکستان آج اُسی موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں سچے اور جھوٹے کے بارے میں فیصلہ کا مرحلہ درپیش ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک کروڑ انیس لاکھ سے زیادہ دستاویزات کے ذریعے سامنے لائی گئی تحقیق بنام ’پینڈورا پیپرز‘ میں دوسو سے زائد ممالک کی اُنتیس ہزار آف شورکمپنیوں کا پردہ فاش ہوا ہے‘ جن کی ملکیت پینتالیس ممالک سے تعلق رکھنے والی ایک سو تیس ارب پتی شخصیات کے پاس ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اِس بارے میں اچھا فیصلہ یہ کیا ہے کہ پنڈورا پیپرز میں جن پاکستانی افراد کے نام شامل ہیں ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے گی تاکہ اس بات کا تعین ہوسکے کہ ان میں سے کسی نے ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کر کے کوئی آف شور کمپنی یا جائیداد تو نہیں بنائی۔ اس سلسلے میں لوگوں کو بدنام کرنے یا ان کے نام ذرائع ابلاغ کے ذریعے اچھالنے کی بجائے شفاف طریقے سے تحقیقات کی جانی چاہئیں تاکہ کسی کو بھی یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ اسے کسی تعصب یا مخاصمت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تحقیقات میں اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی شخص نے جائز یعنی قانونی طریقے سے آف شور کمپنی یا جائیداد بنائی ہے تو اس کے بارے میں واضح طور پر ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا جانا چاہئے تاکہ یہ منفی تاثر زائل ہوسکے کہ جتنے بھی لوگوں نے آف شور کمپنیاں اور جائیدادیں بنا رکھی ہیں وہ سب کے سے چور یا بد دیانت ہیں۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی طرف سے ’پنڈورا پیپرز‘ نامی تحقیق سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں اس حوالے سے شور مچا ہوا ہے اور جن لوگوں کے نام اس تحقیق میں سامنے آئے ہیں ان کے اثاثوں وغیرہ کی چھان بین سے متعلق مطالبے کیے جارہے ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں جن میں سیاستدان‘ بینکار‘کاروباری شخصیات سمیت بہت سے اہم و نامور شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں کے آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں لیکن ایک عام آدمی کو سمجھنا ہے کہ آف شور کمپنی بنانے کا عمل اپنی ذات میں جرم نہیں لیکن اس کے بارے میں بہر طور اپنی ٹیکس ریٹرنز اور اثاثہ جات کی تفصیل میں وضاحت سے بتانا ہوتا ہے کہ فلاں کمپنی فلاں شخص کی ملکیت ہے۔ اگر اس طریقہ کار کے مطابق کسی شخص نے آف شور کمپنی بنائی اور وہ کمپنی کوئی غیر قانونی کام نہیں کررہی تو اس پر قانوناً اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ پنڈورا پیپرز میں جن پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں‘ اُن میں ایسے کردار بھی شامل ہیں جن کے ہاتھ قومی فیصلہ سازی رہی ہے۔ ایک عام کاروباری شخص زیادہ یہی کر سکتا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرے اور محاصل سے متعلق قومی قوانین کی خلاف ورزی کرے لیکن سیاسی فیصلہ سازوں کا جرم زیادہ بڑا ہے کیونکہ اُن کا طرزعمل قوم کیلئے رہنما اور اصول ہوتا ہے اور جس قوم کے فیصلہ ساز اپنی آمدنی کے ذریعے یا اثاثہ جات پوشیدہ رکھیں وہاں کے عام آدمی (ہم عوام) سے اِس بات کی توقع کس بنا پر رکھی جا سکتی ہے کہ وہ قانون پر اِس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف پنڈورا پیپرز کا خیرمقدم کیا ہے بلکہ اعلان کیا ہے کہ اس تحقیق میں جن پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں ان کی تحقیقات کی جائیں گی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ان کے اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے پیغام میں کہا گیا ہے کہ پنڈورا پیپرز اشرافیہ کی ناجائز دولت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری اور بدعنوانی سے جمع دولت مالیاتی پناہ گاہوں میں پہنچ جاتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے چوری شدہ اثاثوں کا تخمینہ سات کھرب ڈالر لگایا ہے۔ یہ دولت بڑے پیمانے پر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کی گئی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میری حکومت پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی۔ اگر کوئی غلطی ثابت ہوئی تو مناسب (قانونی) کاروائی کریں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنیادی طور پر آف شور کمپنی بنانا کوئی غیر قانونی کام نہیں بلکہ ا س کے ذریعے اگر کوئی غیر قانونی سرگرمی وجود میں آئی ہے تو اس پر گرفت ہوگی۔اگر ان کمپنیوں کے حوالے سے پوری طرح حکومتی قوانین کی پاسداری کی گئی ہے اور ان کو ٹٰیکس کی ادائیگی اور دیگر حکومتی قواعد و ضوابط کی روشنی میں وجود میں لایا گیا ہے تو اس میں کوئی خلا ف قانون بات نہیں۔ پینڈورا پیپرز پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں حکومتی بیان اور اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں لیکن اِس بات کی مذمت نہیں کر رہیں کہ جن لوگوں نے پاکستان کے ٹیکس اور دیگر قوانین کو بالائے طاق رکھا اُن کے ساتھ سختی سے معاملہ ہونا چاہئے۔اس معاملے کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ حزب اختلاف حکومت کے ہر اقدام کو شک کی نظر سے نہ دیکھے تو اس طرح دونوں طرف اعتماد میں اضافہ ہوگا اس وقت تو یہ حالت ہے کہ نہ حکومت کو حزب اختلاف پر اعتماد ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کو حکومت کے اقدامات پر یقین ہے۔ اورجہاں تک معاشی اصلاحات کی اہمیت ہے تو اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک میں سرمائے کی کوئی کمی نہیں مگر اس سرمائے کو اس طرح منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملکی ترقی و خوشحالی میں کام آئے۔ ایسے حالات میں کہ جب ملکی معیشت قرضوں کے دباؤ تلے دبی ہوئی ہے۔ ان افراد کو سرمائے کو باہر لے جانا اگر خلاف قانون نہیں بھی ہے تو خلاف حب الوطنی اور وقتی تقاضے کے خلاف ہے۔ اس تمام تناظر میں وزیر اعظم پاکستان کی اقوام متحدہ میں تقریر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جس میں انہوں نے کھل کر کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے سرمایہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف غیر قانونی اندا زمیں منتقل ہورہا ہے اور اس کا راستہ روکنے کی بجائے ترقی یافتہ ممالک اس کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں۔ ان ممالک نے اپنے ہاں ایسے قوانین نافذ کر رکھے ہیں کہ باہر کے ممالک میں سے آئے ہوئے سرمائے کے حوالے سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی بلکہ اس کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور جس قدر سرمایہ یہاں پرلایا جاتا ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔دوسری طرف پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک پر ایف اے ٹی ایف کی صورت میں طرح طرح کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور ان کی معیشتوں کو ایک طرح سے مفلوج کیا جاتا ہے۔ یہاں پرسرمائے کے معمولی نقل حرکت پر بھی پوچھ گچھ ہوتی ہے جبکہ اپنے ہاں انہوں نے پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ اپنے ممالک کے ٹیکسز سے بچنا چاہیں تو یہ ممالک ان کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تویہ حزب اختلاف اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں اتفاق رائے سے اقدامات کریں ابھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں گھسنے والی اُن کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں جو اُن کی ساکھ کو خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کا علاج اگر اب بھی نہ کیا گیا تو کوئی دوسرا موزوں موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پیسہ اور دھن دولت رکھنے والے ا س میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ اس دولت کو جس قدر محفوظ بنایاجا سکے بنایا جائے۔ اور اس قدر محفوظ ہو کہ ٹیکس لینے والوں کی نظروں میں بھی نہ آئے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر وطن عزیز کے تمام سرمایہ کار جو کثیر سرمایہ رکھتے ہیں ا س کو اگر ترقی و خوشحالی کے منصوبوں میں لگائیں تو نہ صرف یہاں پر بہت سے مسائل حل ہوں گے بلکہ خود ان کے سرمائے میں بھی اضافہ ہی ہوگا۔