ایس او پیز پر تو خاک عمل درآمد بھی نہیں ہورہا۔پھر نہ ہی اس پر کسی شہری کو مجبور کیا جا رہاہے کہ عمل درآمد کرے۔الٹا جو عمل درآمدکروانے والے ہیں وہ خود بھی اس سے لا پروا ہیں۔ اس قسم کے نظاروں کے بارے میں اور مقامات کی نشاندہی کرنے کی بابت ہم کیا بتلائیں گے‘ آپ شہر میں گھوم جائیں تو آپ کو خود ہی سب کچھ صاف نظر آ جائے گا۔یکہ توت کی سرکلر روڈ سے نیچے اُتریں اور ایک میل بھر کے فاصلے پر شام کے بعد وہ منڈلیاں جمتی ہیں لوگوں کے وہ گروپ کھڑے ہوتے ہیں کہ جیسے یہاں چاول تقسیم ہو رہے ہیں۔ اس رش میں سڑک ہی الٹا بند ہونے لگتی ہے۔وہاں اگر آپ دیکھ سکیں تو نہ سماجی فاصلہ قائم کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی شہری نے ماسک پہننے کا تکلف کیا ہوتا ہے‘سب کچھ ترک کر دیا گیا ہے۔جب جب کورونا کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے۔پھر اس کی خبریں سوشل میڈیا اور ٹی وی پر دکھلائی جا رہی ہیں۔توں توں ہمارے بھائی بند اوربھی لاپروا ہو رہے ہیں۔مگر پہلے ان کو کون سی ٹینشن لاحق تھی۔خاص کورونا کے دنوں میں بھی وہ بغیر ماسک پہنے گھومتے رہے۔ دور دور اور پہاڑی مقامات کی سیاحت کو قافلے رواں دواں تھے۔راستے میں ناکوں پر پولیس کارندے چست کھڑے تھے۔ مگر یہ ان کی نظر بچا کر پوشیدہ راستوں سے ہوتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ دوڑے۔اب تو کورونا کی زہرناکی میں کمی کی اطلاعات ہیں۔سو اب یہ لوگ کیوں پابندی کریں گے۔سو اب شہر میں اس قسم کے مناظر عام دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اب تو نہ صرف شہریوں نے ایس او پیز کو ناکارہ سمجھا۔بلکہ کورونا کی پابندیوں پر عمل درآمد کرنے والے خود بغیر ماسک کے گھوم رہے ہیں۔اسی سڑک پر جس کا ذکر ہوا شام کے بعد وہ رش ہوتا ہے کہ جیسے جمعہ بازار بروز اتوار بھی لگا ہو۔کسی کو پروا ہی نہیں۔بہت کم لوگ ہیں جو ان دنوں اگر ماسک پہن کر گھر سے نکلیں۔پھر ان لوگوں کی تعداد میں بھی کمی آ گئی ہے جو ہاتھ ملانے کو برا سمجھتے تھے۔ وہ بھی اپنادھڑلے سے ہاتھ ملاتے ہیں جیسے کورونا کی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیاگیا ہے۔یہ تو ایک سے ایک کو اور ایک اور ایک گیارہ کی رفتار سے گیارہ سو بندوں کو لگنے والی بیماری ہے۔سو اس میں ا بھی تک احتیاط کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے۔تاکہ یہ متعدی مرض مزید پھیلنے سے رک سکے۔کیونکہ اس مرض کے دوبارہ سے پھیلنے کا ذکر جب بھی آئے گا تو سب سے پہلا اقدام سکولوں کو بند کرنے کے بارے میں ہوگا۔پھر جو کاروبار کی خرابی جنم لے چکی ہے۔ یہ خرابی اگر ختم ہونے کی طرف جا رہی ہے تو از سرِ نو جنم لے گی۔ پھر یہ اژدہا کی طرح کاروباری مصروفیات کو ثابت نگل لے گی۔ کورونا بیماروں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔اس کی مرکزی وجہ تو لوگوں کا ویکسین لگانا ہے۔ مگر یہ وائرس اگر پھر سر چڑھ کر بولا تو سڑکوں کی چہل پہل پھر سے خاموش ہو جائیگی‘ ہزاروں لوگوں کی جانیں گئی ہیں شادیوں بیاہوں پر جو پابندیاں لگی تھیں وہ اب نہیں رہیں۔ لوگ شادیاں منا رہے ہیں۔ سردیوں کی آمد آمد ہے۔شادی ہالوں کی بکنگ تیزی سے جاری ہے۔ بعض کو خدشہ ہے کہ کورونا پھر نہ سر اٹھا لے۔ اس لئے جتنا جلدی ہو سکے اپنی شادی بیاہ کی ترک کردہ تقریب جلدی برپا کر لیں۔