آج ایک بزرگ سے ملا قات ہوئی وہ گھر سے ٹیلیو یژن کو نکا ل با ہر کر رہے تھے پوچھنے پر بتا یا‘ صرف ٹیلی وژن نہیں میں نے ریڈیو اور سوشل میڈیا کے مکمل بائیکا ٹ کا بھی پکا فیصلہ کر لیا ہے بات سمجھ میں نہیں آئی تو بزرگ نے وضا حت کی ملک اور قوم کے بارے میں کوئی اچھی خبر نہیں آتی بری خبریں دیکھنے، سننے اور پڑھنے سے میڈیا کا بائیکا ٹ ہی بہتر ہے کم از کم ذہنی کو فت، پریشا نی اور اعصا بی تنا ؤ سے نجا ت مل جائے گی بزر گوں سے بحث مبا حثہ منا سب نہیں تا ہم بزرگ کی خد مت میں اس قدر عرض کیا کہ اس میں خبر رساں کا کوئی قصو ر نہیں لڑ کی اغوا ہو گئی تو اس خبر کو خو ش خبری بنا کر پیش کر نا ممکن نہیں ہے میڈیا معا شرے کا آئینہ ہے جو کچھ سما ج میں ہے وہ آئینے میں نظر آتا ہے۔بزرگ کو مختصر جواب دینے کے بعد میں نے اپنے گریبان میں جھا نکنے کی کو شش کی ان کی بات میں حقیقت نظر آئی۔ کہ میڈیا کے زیادہ تر شعبوں پر مایوسی اور اُداسی کی خبریں غالب نظر آئیں، ایک طرف کورونا کی وبا ہے دوسری طرف افغا نستان اور اس سے وابستہ پاکستان کے مسائل کی باتیں ہیں۔خاص کر سوشل میڈیا پر تو تشدد اور اذیت پسندی کا دوردورہ ہے، کوئی بھی ویڈیو آپ کو ملے تو اس میں ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ کمزور دل حضرات تو ان سے دور ہی رہیں تو اچھا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ہمارا نفسیاتی مسئلہ ہے یا کچھ اور عوامل ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو خوشخبری کی بجائے بد خبری پہنچانے میں تیزی دکھاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر دوسرا فرد نفسیاتی عوارض کا شکار نظر آتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر سوشل میڈیا کو ایک دوسرے کی تسلی اور تسکین کا ذریعہ بنایا جائے اور اس فارمولے کو میڈیا کے تمام شعبوں پر لاگو کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں معاشرے کا عکس میڈیا پر نظر آنا چاہئے تاہم بعض اوقات تو مبالغہ آمیز مواد ہی سوشل میڈیا کا حصہ بنتا ہے۔ معمول کے اچھے اور دل کو خوش کرنیوالا مواد کم ہی ملتا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میڈیا اور معاشرتی مزاج کا ایک دوسرے پر براہ راست اثر ہوتا ہے تاہم اس سلسلے میں میڈیا کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ معاشرے کا ایسا رخ پیش کریں کہ جس سے مثبت رویے پروان چڑھیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو اس حوالے سے کسی حد تک قاعدے اور قانون کے پابند ہوں گے تاہم سوشل میڈیا کیلئے قواعد و ضوابط بنانے کی ضرورت لازمی ہے۔اس حوالے سے جس قدر جلد اقدامات اٹھائے جائیں تو اس قدر بہتر ہوگا۔کیونکہ ہر مرض وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے اور پھر اس کے علاج کادورانیہ بھی اس قدر ہی طویل ہوتا ہے اور وہ بھی تب، جب علاج کی طرف توجہ دی جائے۔ مختصرا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں اگر ہر کوئی یہ سوچے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے اور ان کو پرسکون زندگی کے لمحات فراہم کرنے میں کردار اداکریگا، دوسرے معنوں میں اگر ہر کوئی اپنے لئے جو پسند کرتا ہے وہ دوسروں کیلئے بھی پسند کرے تو زیادہ تر مسائل حل ہوجائیں گے۔ہر کوئی اچھی بات اور خوشخبری سننے کیلئے بے تاب رہتا ہے تو دوسروں کے ساتھ بھی ہی رویہ رکھے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی