مہنگائی کے بارے حکومت اور عوام کے مؤقف میں قدر مشترک یہ ہے دونوں ہی مہنگائی کی موجودگی کے بارے اعتراف ِحقیقت کر رہے ہیں۔ ”کامیاب پاکستان پروگرام“ کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ”قرضوں اور مختلف مالی خساروں کے باوجود ہم نے اپنی طرف سے کم سے کم اثرات نچلے طبقے کی جانب منتقل کئے ہیں۔“ تو یہ بات پورا سچ ہے۔ وزیر اعظم کے بقول ماضی کے حکمرانوں کی غلطی یہ رہی کہ اُنہوں نے خوشحالی کو مالی وسائل سے مشروط کر دیا اور سمجھا کہ جب تک پاکستان میں سرمائے کی ریل پیل نہیں ہوگی اور وقت تک ’فلاحی ریاست‘ نہیں بنائی جا سکے گی جبکہ یہ غلط فیصلہ تھا اور موجودہ حکومت ریاست ِمدینہ کی اس لئے بات کرتی ہے کیونکہ وہ دنیا کا کامیاب ماڈل تھا اور اس کے نتائج تاریخ کا حصہ ہیں۔ مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں پر ہندو اور انگریز کے جاری اقتصادی استحصال نے ہی ان میں اپنے لئے الگ خطہئ ارضی کی سوچ پیدا کی تھی جسے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے تحریک پاکستان کی بنیاد بنایا۔ بانیئ پاکستان قائد اعظم نے بلاشبہ جدیداسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا تصور پیش کیاتھا جو درحقیقت ریاست مدینہ کا ہی تصور تھا چنانچہ برصغیر کے مسلمانوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور تیئس مارچ اُنیس سوچالیس کی قرارداد لاہور کی بنیادپر الگ مملکت کے حصول کے لئے شروع ہونے والی تحریک میں ان کا دامے‘ درمے‘ سخنے ساتھ دیا۔ اسی بے پایاں جذبے کے تحت سات سال کے مختصر عرصہ میں قائداعظم کی فہم و بصیرت سے پاکستان کی شکل میں ایک نئی آزاد و خودمختار مملکت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔ اگر قائداعظم مزید کچھ عرصہ حیات رہ جاتے تو وہ پاکستان کی صورت میں جدیداسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا خواب شرمندہئ تعبیر کر جاتے مگر ان کے انتقال کے بعد مثالی صورتحال قائم نہ رہ سکی۔ اس کٹھن صورتحال میں عوام کو فی الواقع کسی ایسے مسیحا کی ضرورت تھی جو حکمرانوں کے پیدا کردہ اور گھمبیر بنائے گئے ان کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے خلاصی دلا کر انہیں آبرومندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ دکھا سکے۔تحریک انصاف نے استحصالی نظام سے خلاصی کیلئے عوام کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کی جس کا نتیجہ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ کی صورت سامنے آیا اور اسے اقتدار کی مسند تک پہنچا دیا جس کے بعد عوام فطری طور پر اپنے روٹی روزگار کے مسائل میں ریلیف اور آسودگی چاہتے تھے لیکن تحریک انصاف کے تین سالہ دور حکومت میں عوام کی توقعات کے برعکس غربت‘ بے روزگاری کے مسائل مزید بڑھے ہیں اگر چہ اس کی وجوہات کا تعلق عالمی وباء سے بھی ہے اور پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان عوام کے ریلیف کے اعلانات کرتے ہیں اور مہنگائی میں کمی کی امید بھی دلاتے ہیں مگر عملاً روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی بڑھ رہی ہے جبکہ عوام کے وسائل پہلے سے بھی محدود ہو رہے ہیں۔اس وقت حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور تھوڑا رہتا ہے ایسے میں عوام بجا طور پر موثر اور تیز اقدامات کی توقع کرتے ہیں۔ جن پر پورا اترنا یقینا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے تاہم اس پر پورا اترنے میں ہی بھلائی ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں عوام الیکشن میں اپنا فیصلہ سنا سکتے ہیں اور ووٹ کی طاقت سے اپنے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم کی طرف سے وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کو شبانہ روز کام کی جو ہدایات جار ی کی گئی ہیں وہ ایک اہم قدم ہے اور موجودہ حالات میں ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہو جس سے عوام کو ریلیف ملے۔