بھلے رش ہو اور خوب ہو۔ کیونکہ رش تو ہوگا۔ یہ شہر ہے کوئی چھوٹا موٹا گاؤں تو نہیں ہے۔شہر کی رونق اس چہل پہل سے ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایک گذارش ہے۔ وہ یہ ہے کہ ٹریفک اگر زیادہ ہے تو بھلے ہو مگر ٹریفک کے بہاؤ میں کوئی شئے خلل انداز نہ ہو۔ٹریفک کی روانی ہو پریشانی نہ ہو۔ٹریفک زیادہ سہی مگر دھیرے دھیرے ہی سہی چلتی رہے۔ سارا دن سڑکیں گاڑیوں سے لبالب بھری رہیں مگر اس دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ ہو۔ ورنہ اس دریا کا پانی جیسا کہ اب ہے گلیوں کوچوں تک مزید چلا آئے گا۔یہاں تو اور ہی عالم ہے۔ ایک ڈوڈجیم کار والا کھیل ہے۔کسی پارک میں کاروں والی گیم میں بچے بڑے اپنی اپنی کار میں بیٹھ جاتے ہیں۔پھر وہاں چھوٹے سے احاطے میں بہت سی گاڑیاں چلتی ہیں۔اگر آپ کسی کی گاڑی کو ٹھوک دیں تو سامنے والے کیلئے پریشانی نہیں اور اگر مدمقابل آپ کی گاڑی کو ٹکر مار دے تو آ پ کیلئے حیرانی نہیں۔سو ایک مزے کی کیفیت ہوتی ہے۔اسی طرح ہمارے شہر کی سڑکوں پر بھی یہی ڈوڈجیم جیسی کاروں کی بھر مار ہے۔ کوئی کسی کو بھی ٹکر مارے دے ایسا ممکن ہے۔ کیونکہ سڑکیں تو چوڑی چکلی ہیں جن پر کھلم کھلا گاڑیوں کا یہ بے ہنگم ڈرامہ جاری ہے۔ توبہ توبہ کسی کو کچھ احساس نہیں کوئی الٹی جانب سے ون وے میں گھس کرتیزی سے آرہا ہے۔اسے نہ معاشرے کا خوف ہے نہ تو اپنے انجام سے ڈر لگتا ہے۔پھر اس کو اس بات سے بھی بے خوفی حاصل ہے کہ پولیس والا کہیں اسے دھر نہ لے۔خوب روانی اور تیزی سے آتے جاتے ہیں۔گلی کوچے ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔جس کی مرضی جیسے جائے اور جیسے سامنے سے آئے۔ عام آدمی کے بس میں تو نہیں کہ ان میں کسی ایک کو روک کر دکھائے ٹوک کر دکھلائے۔یہ اس کی جان کو آ جائیں گے۔اس لئے کوئی کسی کے ساتھ منہ ہی نہیں مارتا۔جانے دو جیسا جاتا ہے۔ان کے دل میں کوئی خدا خوفی نہیں۔ان کے دماغ میں کوئی قانون کا ڈر نہیں۔جہاں گاڑی نہیں جا سکتی کہ وہاں سڑک کا ناپ ان کی گاڑی کے ناپ سے چھوٹا ہے۔ وہاں تو یہ نہیں جائیں گے مگر وہاں رکشہ موٹر سائیکل والے اور چنگ چی والے جاتے ہوں گے۔ہمارے ہاں تو فٹ پاتھ پر بھی بائیک رائیڈر اپنی کرتب بازی میں مصروف ہو تے ہیں۔گویا پیدل چلنے والوں کی راہ یہ فٹ پاتھ بھی ان کی دست برد سے آزاد نہیں ہیں۔ان کے دل میں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ رش ہوا توکیا ہوا میں نکل جاؤں گا۔پھر واقعی وہ نکل بھی جاتا ہے۔کیونکہ اس کے استعمال کیلئے فٹ پاتھ کا راستہ جو موجود ہے۔ہمارے عوام میں سمجھ بوجھ کی کمی ہے اور خاصی زیادہ ہے۔جس کی وجہ سے چھوٹے سے شہر کی بڑی سڑکوں پر ٹریفک کا بے تحاشا بوجھ ہے۔جس کو ہر چند سنبھالا جا سکتا ہے۔مگر یہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔کیونکہ ہم خود از خود اس خلل کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم اپنے رویوں میں تبدلی لے آئیں تو کیا مجال کہ ٹریفک کی پریشانی کا شکا رہوں۔ لیکن جو اچھے ذہن کے مالک ہیں وہ بھی کچھ دن اچھے رہتے ہیں۔جب ان کو راستہ نظر نہیں آتا۔پھر وہ ٹریفک کا لامتناعی سلسلہ دیکھ کر اپنے آپ کو پھنسا ہوا محسوس کر تے ہیں تو وہ بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور رِنگ روڈ پر جاتے ہیں۔ بلکہ رنگ روڈ کی تو کیا بات۔ جی ٹی روڈ ہو یا ورسک روڈ، حیات آباد روڈ ہو یونیورسٹی روڈ ہوسٹی سرکلر روڈ کوئی سڑک ان کے ستم سے آزاد نہیں۔بس ایک بے ہنگم کارستانیاں ہیں جو ہم لوگ خود انجام دے رہے ہیں۔اگر آپ کیلئے کوئی جائے پناہ ہے تو وہ آپ کا اپنا گھر ہے جہاں آپ سکون سے ہوسکتے ہیں۔ وگرنہ اگر آپ سڑک پر آگئے تو آپ اپنے آپ کو نہ صرف غیر محفوظ سمجھیں گے بلکہ کڑھن جلن اور تھکاوٹ اور الجھن کا شکار سمجھیں گے۔ کیونکہ اس شہر کی ٹریفک کا یہی تحفہ ہے۔سو آپ یا تو گھر ہی میں رہیں یا پھر باہر نکلیں تو دل بڑا کر کے آئیں۔ کیونکہ باہر سڑک پر اس شہر کے بعض باسیوں کے ہاتھوں بہت بے سکونی کا عالم ہے۔شہرکا شہر اپنے دامن میں زندان کی سی تنگی رکھتا ہے۔ گوکہ سڑکیں کشادہ ہیں مگر دل کی تنگی کو بڑھاتی ہیں۔