پاکستانی روپے پر دباؤ میں کمی‘ اَمریکی ڈالروں کی افغانستان غیرقانونی منتقلی (اسمگلنگ) اور ڈالر خریدنے کی رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے مالیاتی نظم و ضبط سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں مرکزی بینک کے ایک نئے حکمنامے کی روشنی میں ’ضرب صرافہ (اوپن) مارکیٹ‘ سے ڈالر خریدنے پر مزید پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور اب اِس بات کو ڈالروں کی خریدوفروخت سے مشروط کر دیا گیا ہے کہ اوپن مارکیٹ سے پانچ سو یا اس سے زائد ڈالر خریدنے والے شخص کی بائیومیٹرک تصدیق کی جائے گی اور تصدیق کا یہ عمل لازم ہوگا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کو مستحکم رکھنے کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی جبکہ کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے پاس ذخائر صرف اُسی حد تک معلوم ہیں جس قدر اُنہوں نے خود ظاہر کئے ہیں اور یومیہ کی بنیاد پر ڈالر خریدنے کے عشرعشیر سے سٹیٹ بینک کو مطلع کیا جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ اقدامات ایک ایسے وقت میں کئے گئے ہیں جبکہ فی ڈالر 170 کی نفسیاتی حد عبور کر کے 171 روپے اور اِس سے آگے بڑھ رہا ہے جو پاکستانی روپے کے مقابلے ڈالر کی بلند ترین شرح تبادلہ ہے۔رواں ہفتے سٹیٹ بینک سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”ایکس چینج کمپنیوں کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ پانچ سو ڈالر یا اس سے زائد کی کرنسی فروخت اور ترسیلات زر پر بائیومیٹرک تصدیق کریں۔ مرکزی بینک کے مطابق اس سے قبل کوئی بھی شخص قومی شناختی کارڈ کی ایک نقل فراہم کرکے ایکس چینج کمپنیوں سے ڈالر حاصل کرسکتا تھا اور یہ شرط 22اکتوبر 2021ء سے لاگو ہوگی۔ یہ بڑا قدم بظاہر ملک سے افغانستان میں ڈالر کے اخراج کو روکنے کیلئے اٹھایا گیا ہے جس نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں نمایاں اضافہ اور شرح تبادلہ کو غیر مستحکم کیا۔ امریکی ڈالر کی زیادہ طلب کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی تیزی سے گراوٹ پر قابو پانے کیلئے اسٹیٹ بینک پہلے ہی کئی اقدامات اٹھا چکا ہے۔ اس سے قبل ایکس چینج کمپنیاں میڈیا کے ذریعے اس بات کو اُجاگر کرچکی ہیں کہ افغانستان کیلئے ڈالرز کا بہاؤ بہت زیادہ ہے جبکہ فچ ریٹنگ کمپنی نے بھی حال ہی میں اس مسئلے کو شرح تبادلہ کو غیر مستحکم کرنے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اقدامات کے مطابق افغانستان جانے والے ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار ڈالر فی دورے کی اجازت ہوگی‘ جس کی سالانہ حد 6 ہزار ڈالر ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ سرکلر میں کہا گیا کہ ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے غیر ملکی کرنسی کے لین دین میں شفافیت کو بڑھانے اور نقد غیر ملکی کرنسی کے ناپسندیدہ اخراج کو روکنے کیلئے سٹیٹ بینک نے کچھ ریگولیٹری اقدامات متعارف کرائے ہیں۔ بینک کے مطابق ایکسچینج کمپنیاں دس ہزار ڈالر اور زائد کی غیر ملکی نقد کرنسی کی فروخت اور بیرونِ ملک ترسیلات زر بھیجنے کا عمل صرف چیک کے ذریعے وصول ہونے والی رقوم کے عوض یا بینکاری ذرائع سے کریں گی اور اُمید ہے کہ حسب حکمت عملی یہ ریگولیٹری اقدامات ایکس چینج کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کی فروخت کی دستاویزات کو بہتر بنانے اور غیر ملکی کرنسی کے ناپسندیدہ اخراج کو چیک کرنے میں مدد کریں گے۔پشاور کی ضرب صرافہ مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے ایک کرنسی ڈیلر کے مطابق ”پانچ سو ڈالرز یا زائد کی خریداری پر بائیومیٹرک تصدیق کی شرط سے اوپن مارکیٹ سے خریداری کم کرنے میں یقینا مدد ملے گی جو سٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی ہدف ہے اور اگر یہ اقدام پہلے کر لیا جاتا تو پاکستانی روپیہ اِس قدر گرواٹ کا شکار نہ ہوتا۔