بین الاقوامی فوجداری عدالت کے نئے مستغیث اعلیٰ نے اعلان کیا ہے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات صرف طالبان اور داعش تک محدود رہیں گی اور وسائل کی کمی کے باعث امریکہ بارے تفتیش نہیں کی جائیگی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے آئی سی سی کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ ان کے مطابق کابل میں امریکی ڈرون حملے میں بچوں سمیت گیارہ عام شہریوں کے قتل کے تناظر میں آئی سی سی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ چین نے بھی افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ آئی سی سی کے اس فیصلے سے انصاف کے محافظ کے طور پر اس ادارے کی حیثیت مشکوک ہوجائیگی‘ اس پر ایک بڑی تنقید یہ ہوتی ہے کہ یہ ادارہ افریقہ کے غریب ممالک کے خلاف ہی زیادہ تر جنگی جرائم کی تحقیقات کرتا آیا ہے اور امریکہ، برطانیہ، بھارت، اسرائیل، روس اور دیگر طاقتور ملکوں کے مبینہ مظالم پر ان سے بازپرس کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسے اب طاقتوروں کی خوشنودی یا مظلوموں کو انصاف کی فراہمی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے بھی امریکہ اور برطانیہ کو کہا تھا کہ وہ اپنی افواج کے خلاف غیر قانونی ہلاکتوں میں ملوث ہونے پر تحقیقات کروائیں لیکن ان دونوں نے سنی ان سنی کردی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر امریکی اور اس کے نیٹو اتحادی افواج بارے منظم تحقیقات کی جائیں تو نتائج زیادہ خوفناک ہوں گے۔ یہ عالمی ادارہ تبھی انصاف کرسکے گا جب اس کے تحقیق کار پابندیوں کے خوف کے بغیر تحقیقات کے قابل ہوجائیں اور امریکہ انہیں آزادانہ کام کرنے دے۔یاد رہے افغانستان میں جنگی جرائم کی تفتیش 15برس پہلے شروع ہوئی تھی۔ مگر امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ 2020 میں بھی جب آئی سی سی کی اب سبکدوش مستغیث اعلی فاتو بنسوڈا نے افغان فوج، خفیہ اداروں، طالبان اور امریکی فوجیوں کے خلاف 2003 سے مبینہ جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا تو سابق افغان حکومت نے کہا وہ خود ہی اس کی تحقیقات کرے گی چنانچہ آئی سی سی کی تحقیقات روک دی گئیں۔ فاتو بنسوڈا نے 2017 میں بھی کوشش کی تاہم تب بھی انہیں تحقیقات کی اجازت نہ ملی۔ الٹا صدر ٹرمپ نے بنسوڈا اوردیگر آئی سی سی اہلکاروں پر سفری اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں‘ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے اپریل میں آئی سی سی پر ٹرمپ دور کی پابندیاں ختم کر دیں مگر اب بھی امکان کم ہے کہ امریکہ آئی سی سی میں شامل ہوگا یا وہ افغانستان میں اپنی افواج کے جنگی جرائم کی تحقیقات میں تعاون کرے گا۔ امریکہ خود کو انسانی حقوق اور آزادیوں کا محافظ کہتا ہے لیکن یہ خود انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتا ہے، اپنے جرائم پر پردہ ڈالتا ہے جبکہ آئی سی سی یا کسی دوسرے ادارے کو اپنے خلاف تحقیقات کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر اس نے جنگی جرائم کا ارتکاب نہیں کیا ہے تو یہ تحقیقات سے پھر کیوں ڈرتا ہے۔ خود تو یہ پین ایم کے طیارے پر مبینہ حملہ کرنے پر لیبیا سے کروڑوں ڈالر وصول کرے اور جب اپنی باری آئے تو فنی باریکیوں میں فرار ڈھونڈتا پھرے۔ واضح رہے اب تک 123 ممالک آئی سی سی کے رکن ہیں مگر امریکہ، روس, اسرائیل اور چین سمیت کئی ممالک اس سے باہر ہیں۔ آئی سی سی صرف تب کسی ملک کے خلاف تحقیقات کرسکتا ہے جب اس کا کوئی رکن ملک جنگی جرائم، انسانیت سوز جرائم یا نسل کشی کے ملزمان پر خود مقدمہ چلانے سے قاصر ہو یا ایسا کرنے سے انکار کردے۔سترہ ستمبر کو امریکہ نے 29 اگست کو کابل میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے کوافسوسناک غلطی قرار دیا لیکن اس سانحے کی غلط اطلاع دینے والوں اور قتل کے ذمہ دار کسی امریکی اہلکار کو کوئی سزا نہیں دی۔ پھر یہ غلط ڈرون حملہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی امریکہ اور اس کے اتحادی جنازوں، شادی پروگراموں، مساجد اور جرگوں پر حملے کرکے ان گنت بے گناہ افغانوں کو مار چکے۔ بران یونیورسٹی کے اندازے کے مطابق افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے 46 ہزار سے زائد افغان شہری جاں بحق ہوگئے۔ لندن میں قائم ایکشن آن آرمڈ وائلنس کے مطابق 2016 اور 2020 کے درمیان اتحادی افواج کے فضائی حملوں سے تقریباً 4000 ہلاکتیں ہوئیں جن میں 1600 بچے تھے۔ ناقدین کے مطابق امریکہ انسانی حقوق کیلئے بہت بڑا خطرہ رہا ہے۔ سولہویں صدی سے امریکہ میں وہاں کے اصل باشندوں ریڈ انڈینز کا قتل عام شروع ہوا جس سے 19 ویں صدی تک ان کی تعداد ایک کروڑ سے کم ہو کر دو لاکھ ہو گئی۔ اس کی وجہ سے امریکی ہولوکاسٹ کی اصطلاح مشہور ہوئی۔ امریکہ کو سیاہ فاموں کا جہنم اور سفید فام بالادستی اور انتہاپسندی کا مرکز کہا جاتا ہے‘ 1776 سے اب تک اس کا زیادہ وقت جنگوں میں گزرا ہے۔ اسکے سینکڑوں فوجی اڈے اب بھی کئی ممالک میں موجود ہیں‘ 2001 کے بعد سے اس نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں کئی ممالک میں لاکھوں افراد ہلاک، زخمی اور بے گھر کیے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان سب واقعات بارے آزادانہ تحقیقات نہیں ہوئیں۔ افغانستان میں امریکہ کے نیٹو اتحادیوں کے ہاتھ بھی خون آلود ہیں۔ آسٹریلین ڈیفنس فورس کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل ڈیوڈ ولیتھم پال بریریٹن کی رپورٹ نومبر 2020 میں منظرعام پر آئی تو آسٹریلوی فوج کے سربراہ جنرل انگس کیمپبل نے افغانستان میں اپنے افسروں اور جوانوں کے ہاتھوں انسانیت سوز جرائم پر افغان قوم اور اپنے عوام سے معافی مانگی اور ان کے کردار کو شرمناک قرار دیا‘ اس رپورٹ میں درج ہے کہ افغانستان میں جب مغربی افواج کو مارے گئے افغانوں کے پاس سے کوئی اسلحہ نہ ملتا تو انہیں جنگجو ثابت کرنے کیلئے یہ ان کی لاشوں پر ہتھیار رکھ دیتے۔ اسی طرح ایک سابق آسٹریلوی فوجی افسر نے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر سمنتھا کو حلفا ً بتایا کہ امریکی اور برطانوی ہم سے کہیں زیادہ بدتر ثابت ہوئے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کے بہت سے فوجی افسر اور جوان افغانستان پہنچ کر نسل پرست، متعصب، مسلم دشمن اور ظالم بن گئے۔ انھیں جب بھی موقع ملا، انھوں نے عام افغانوں کے ساتھ وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کیا۔جرمنی کی چانسلر نے بھی 2009 میں قندوز میں 142 عام افراد کے جرمن فضائی حملے میں مارے جانے پر افسوس اور ندامت کا اظہار کا اور جرمنی کے وزیر دفاع اور چیف آف سٹاف نے اس پر استعفٰی دیا تھا۔ 2019 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ صرف 2009 سے 2013 کے دوران افغانستان میں مغربی افواج نے کم از کم اٹھارہ سو افغان شہری مار ڈالے جو اکثر غیر مسلح تھے۔ یہ صرف چار برس کی تعداد ہے‘ بیس سالہ جنگ میں یہ تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ کیا ایسے واقعات کی تحقیقات کرنا اور ان کے مرتکبین کو سزا دلوانا انصاف کا تقاضا نہیں ہے؟