پاکستانی کرکٹ ٹیم کی صورتحال یہ ہے کہ فی الوقت کسی بھی کھلاڑی کو علم نہیں کہ وہ کتنا اچھا ہے نہ ہی سلیکٹرز کو یہ بات معلوم ہے کہ کون سا کھلاڑی کتنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر آپ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام لکھیں تو بابراعظم اور رضوان کے بعد کون ہوگا‘ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح بولنگ میں حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کے بعد فہرست ختم ہو جاتی ہے! اس بات کو اگر ہم اعداد و شمار کی شکل میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی ٹیم جو اس وقت ٹی 20کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر ہے اس کی بیٹنگ مکمل طور پر بابراعظم اور رضوان پر انحصار کر رہی ہے۔ یہ دونوں کھلاڑی اسی سال تین مرتبہ سنچری پارٹنرشپ قائم کر چکے ہیں۔ اس سال رضوان کے ٹی 20انٹرنیشنل میں بنائے گئے رنز کی تعداد 752 ہے جبکہ بابراعظم مجموعی طور پر رواں برس ٹی 20میں 523 رنز بنا چکے ہیں لیکن ان کے بعد تیسرا سب سے بڑا سکور صرف 183ہے جو فخر زمان کا ہے۔ حفیظ جنہوں نے گذشتہ سال اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس سال محض 106 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ اس سے مڈل آرڈر بیٹنگ کی ناکامی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مڈل آرڈر میں جن بیٹسمینوں کو آزمایا جا چکا ہے ان میں سب سے زیادہ مواقع آصف علی اور حیدر علی کو ملے ہیں لیکن وہ اپنے ٹیلنٹ سے انصاف نہیں کر سکے ہیں۔ اعظم خان‘ صہیب مقصود اور شرجیل خان کو سب سے بڑا مسئلہ فٹنس کا درپیش رہا ہے۔ بولنگ میں شاداب خان کا غیر مؤثر ہونا پاکستانی ٹیم کے لئے بہت نقصان دہ رہا ہے جو آخری دس اننگز میں بولنگ کرتے ہوئے صرف دو مرتبہ تین تین وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور ان دس میں سے چھ میچز ایسے ہیں جن میں وہ ایک بھی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیا پاکستان آنے والے ٹی 20 ورلڈکپ میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ پائے گا اور اس زوال کو دوبارہ عروج میں تبدیل کر سکتا ہے؟ یہ سوالات پاکستان کے ہر کرکٹ مداح کے ذہن میں ہیں اور ان کے جوابات ہمیں اسی ماہ کے آخر میں مل جائیں گے۔یادش بخیر پانچ برس قبل بھارت میں منعقدہ ٹی 20ورلڈ کپ میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد جب پاکستانی ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی سے آسٹریلوی کمنٹیٹر مائیکل سلیٹر ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کر رہے تھے تو اس وقت اکثر افراد آفریدی کی ممکنہ ریٹائرمنٹ سے زیادہ یہ سوچ رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ ٹی 20ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی مسلسل تیسری ناکامی تھی۔ اس ورلڈ کپ کا آغاز تو بنگلہ دیش کے خلاف جیت سے ہوا تھا لیکن پھر صرف چھ روز میں پاکستان کو تین بڑی کرکٹ ٹیموں بھارت‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اُس عالمی کپ سے قبل پاکستان ٹی 20کی عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر تھا اور جب یہ ایونٹ ختم ہوا تو اس وقت بھی پاکستانی ٹیم اسی پوزیشن پر کھڑی تھی۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اس کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ٹی 20کرکٹ کی عالمی درجہ بندی کا آغاز دوہزارگیارہ میں ہوا تھا تب برطانیہ نے اس رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس ٹی 20عالمی رینکنگ میں پاکستان کی ساتویں پوزیشن تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کارکردگی میں اس قدر بہتری آتی گئی کہ اس کا اثر عالمی رینکنگ میں بھی دکھائی دینے لگا۔ پاکستانی ٹیم اس سے قبل دو مرتبہ مختصر عرصے کے لئے ٹی 20 درجہ بندی میں پہلی پوزیشن میں آنے کے بعد تیسری مرتبہ اٹھائیس جنوری دوہزاراٹھارہ کو عالمی نمبر ایک پر آ گئی۔ اس مرتبہ یہ دورانیہ تیس اپریل دوہزاربیس تک یعنی 884دنوں تک قائم رہا۔ یہ برتری بالآخر یکم مئی 2020ء کو آسٹریلیا نے ختم کی۔ ٹی 20عالمی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کی شاندار کارکردگی پر مبصرین اور ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ اس دور میں بابراعظم‘ فخر زمان‘ شاداب خان‘ عامر‘ فہیم اشرف اور عماد وسیم کی کارکردگی اور کامبینیشن کے تسلسل کے باعث پاکستان کو یہ مقام حاصل ہوا۔ سینئر کھلاڑیوں میں شعیب ملک‘ حفیظ اور کپتان سرفراز موجود تھے جن کے ہوتے ہوئے ٹیم اچھے نتائج دے رہی تھی۔ٹیم گرین نے سرفراز احمد کی قیات میں لگاتار گیارہ سیریز جیتنے کے بعد شعیب ملک کی کپتانی میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہاری۔ سری لنکا کے خلاف ہونے والی ٹی 20 سیریز ٹرننگ پوائنٹ تھی جس نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی۔ مذکورہ سیریز میں سری لنکا کی ایک کمزور ٹیم سے تین صفر کی شکست کے بعد کھلاڑی تو وہی رہے لیکن سرفراز کپتان نہ رہے حالانکہ اس سیریز میں وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بھی تھے۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ شہزاد اور عمراکمل کو کسی مضبوط دلیل اور جواز کے بغیر ٹیم میں لانے سے اس سیریز میں کامبینیشن خراب ہوا اور نزلہ کپتان سرفراز پر گرا حالانکہ وہ اس سلیکشن کے حق میں نہیں تھے۔ سرفراز پاکستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب ٹی 20کپتان ہیں جنہوں نے سینتیس میں سے اُنتیس میچز جیتے اور صرف آٹھ میں شکست ہوئی۔ سرفراز کی کپتانی سے ہٹنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے بتیس ٹی 20انٹرنیشنل کھیلے ہیں جن میں سولہ جیتے اُور دس ہارے ہیں اور چھ نامکمل رہے ہیں۔ اس دوران ٹیم گرین برطانیہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی بڑی ٹیموں کو ہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس نے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کو دو دو مرتبہ جبکہ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کو ایک ایک بار ہرایا ہے۔ ٹیم گرین کی کارکردگی میں گراوٹ کی بنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ کی گئی تبدیلیاں ہیں۔