سال دوہزاراکیس کیلئے ’امن کا (عالمی) نوبیل انعام‘ روس اور فلپائن میں اظہار رائے کی آزادی کا بہادری سے دفاع کرنے والے2 صحافیوں ماریہ ریسا اور ڈمٹری موراتوف کو دیا گیا ہے۔ ماریہ کا تعلق فلپائن جبکہ ڈمٹری کا تعلق روس سے ہے۔ اوسلو (ناروے) کے نوبیل انسٹی ٹیوٹ نے فاتحین کے ناموں کا اعلان کیا جنہیں مجموعی طور پر ایک کروڑ سویڈش کرونا دیئے جائیں گے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ نوبیل انعام کیلئے تین سو اُنتیس امیدواروں میں سے اِن دو کا انتخاب کیا گیا۔ ماریہ ریسا کو‘ نیوز سائٹ ریپلر کی شریک بانی ہیں جنہیں اظہار رائے کا تحفظ کرنے میں اُن کی خدمات کے ساتھ ریاستی طاقت کے غلط استعمال کے بارے میں لکھنے‘ تشدد کے واقعات کو ظاہر کرنے اور اپنے آبائی ملک فلپائن میں بڑھتی ہوئی آمریت کو بے نقاب کرنے پر سراہا گیا ہے۔ ان کی کامیابی سے یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ صحافت کی دنیا میں ’حقائق کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں اور حقائق کے بغیر دنیا کا مطلب سچائی اور بھروسے کے بغیر کی دنیا ہے۔ نوبیل کمیٹی نے صحافت کے شعبے میں دوسرا اعزاز ڈمٹری موراتوف کو دیا ہے جو ایک آزاد اخبار نووایا گزیٹا کے شریک بانی اور چیف ایڈیٹر ہیں اور کئی دہائیوں سے روس میں بڑھتے ہوئے مشکل حالات میں آزادی اظہار کا دفاع کر رہے ہیں۔ ٹیلیگرام چینل پوڈیوم پر اُن کی بات چیت کے اقتباسات جاری ہوئے ہیں جن میں ڈمٹری موراتوف نے کہا کہ ’نوبیل انعام ملنے کی مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔ یہ (تو) ایک پاگل پن ہے۔‘ درحقیقت نوبیل انعام روس میں صحافت کی آزادی کا دفاع کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف ہے کیونکہ اب وہاں آزاد صحافت کرنا آسان نہیں رہا۔ ڈمٹری کو کریملن کے ترجمان ڈمٹری پیسکوف نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ مسلسل اپنے خیالات کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو صحافت کیلئے وقف کر رکھا ہے اور وہ باصلاحیت و بہادر انسان ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ہر سال امن کا نوبیل انعام اُن افراد یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ’قوموں کے درمیان بھائی جارے کیلئے سب سے زیادہ یا سب سے اچھا کام کیا ہو۔‘ نوبیل کمیٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”آزاد اور حقائق پر مبنی صحافت طاقت کے غلط استعمال‘ جھوٹ اور پراپیگنڈے سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے بغیر‘ قوموں کے درمیان بھائی چارے کو کامیابی سے فروغ دینا‘ تخفیف اسلحہ اور ورلڈ آرڈر مشکل ہو جائے گا۔“ماریہ ریسا نے سال دوہزاربارہ میں نیوز سائٹ ریپلر کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی۔ اس ویب سائٹ کے اب فیس بک پر چوون لاکھ فالورز ہیں اور یہ اپنے تجزئیوں اور بہترین تحقیقاتی رپورٹس کیلئے مشہور ہے۔ اِن کا شمار فلپائن کے اُن چند میڈیا اداروں میں ہوتا ہے جو وہاں کے صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے اور ان کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ ریسا کو متعدد قانونی مقدمات کا بھی سامنا ہے‘ جن کے پیچھے ان کے بقول سیاسی محرکات ہیں لیکن فلپائن میں ریسا کی عزت اس لئے کی جاتی ہے کیونکہ وہ حکومتی طاقت کے سامنے ڈٹ جانے والوں میں سے ایک ہیں۔ نوبیل انعام جیتنے والے دوسرے صحافی ڈمٹری موراتوف نے 1993ء میں نووایا گزیٹا نامی اخبار کی بنیاد رکھی تھی جس میں وہ بطور ایڈیٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مذکورہ اخبار (نووایا گزیٹا) روس کے ان چند اخبارات میں سے ایک ہے جو حکمراں طبقے‘ خاص طور پر روس کے صدر (ولادیمیر پوٹن) پر تنقید کرتے ہیں۔ ہفتے میں تین بار شائع ہونے والا یہ اخبار باقاعدگی سے مبینہ بدعنوانی اور حکمران حلقوں میں دیگر بددیانتیوں کی تحقیقات کرتا ہے اور ان لوگوں کی حالت زار کو اجاگر کرتا ہے جنہیں وہ سرکاری زیادتی کا شکار سمجھتا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق مذکورہ اخبار کے چھ رپورٹرز اب تک قتل ہو چکے ہیں۔ اِس اخبار کو اکثر دھمکیاں ملتی رہتی ہیں اور اِن کے کارکنوں کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ ریسا اور موراتوف امن کے نوبیل انعام کے 102ویں فاتح ہیں۔ گزشتہ برس یہ انعام اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کو دیا گیا تھا جو دنیا سے بھوک مٹانے اور امن و امان بہتر بنانے کی کوششوں کرنے والا عالمی ادارہ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ امن کا عالمی اعزاز اگر نہ بھی ملتا‘ تب بھی آزادیئ اظہار کے تحفظ اور صحافتی محاذ پر بنا کسی مصلحت یا سمجھوتے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں کے حوصلے پست نہ ہوتے۔ درحقیقت وہ تمام 329 صحافیوں جن کے نام اِس سال کے نوبیل انعام مقابلے میں شریک تھے وہ سب کے سب فاتحین اور اِن تمام صحافیوں نے خود کو صحافت کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ جابر حکمراں کے سامنے کلمہئ حق اگر ’جہاد‘ کی ’بہترین قسم‘ ہے تو ایسی ہستیاں بغیر کسی اعزاز بھی انسانیت کا وقار ہیں‘ جو اپنے گردوپیش میں ہونے والے ظلم و استحصال اور ریاستی طاقت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہی نایاب ہستیاں کرہئ ارض کا حسن اور سرمایہ ہیں۔