سردمہری کا خاتمہ

افغانستان کے حوالے سے عالمی برادری کی سوچ میں واضح تبدیلی دکھائی دی ہے اور اُمید ہے کہ اُس غیرمنطقی مؤقف سے رجوع کر لیا جائے گا‘ جو طالبان کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں اہم ترین پیشرفت اگست میں امریکی فوجی انخلا اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پہلی بار امریکی حکام اور افغان حکمراں جماعت کے نمائندوں کے درمیان براہ راست ملاقات اور بات چیت ہوئی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق دوحا (قطر) میں ہوئے اجلاس میں طالبان سے دہشت گرد گروہوں کو روکنے‘ افغانستان میں باقی ماندہ امریکی شہریوں کے انخلأ اور انسانی ہمدردی کی امداد جیسے موضوعات پر غور کیا گیا تاہم امریکہ نے واضح کیا ہے کہ طالبان نمائندوں کے ساتھ مذاکرات افغانستان میں ان کی حکمرانی تسلیم کرنے کے مترادف نہیں ہیں لیکن افغانستان میں امن و امان کی صورتحال مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے۔ آٹھ اکتوبر کے روز قندوز شہر (شمالی صوبے) میں خود کش دھماکہ ہوا جس میں کم از کم پچاس افراد ہلاک اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ حملہ سید آباد مسجد میں کیا گیا جہاں  نماز کی ادائیگی کیلئے نمازی جمع ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔ طالبان حکومت اگرچہ داعش کی نفسیات سمجھتی ہے اور اُن کا طریقہئ واردات بھی طالبان کیلئے ’انوکھا (سرپرائز)‘ نہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں اُنہیں اِس قدر انتظامی مسائل نے آ گھیرا ہے کہ اُنہیں کسی ایک بھی محاذ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔ طالبان کو سکون سے حکومت کرنے نہ دینے کی اِس کوشش کے پیچھے عالمی سازش کارفرما ہے‘ جس کیلئے طالبان کو وقتی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات درحقیقت ایک ایسی برف پگھلنے کا اشارہ ہے‘ جسے آمد بہار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔سال دوہزاربیس میں امریکہ کے ساتھ ہوئے معاہدے کے ذریعے طالبان کو اِس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ القاعدہ جیسے گروہوں کو روکنے کیلئے اقدامات کریں گے تاکہ وہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے ماضی کی طرح خطرہ نہ بن سکیں۔ امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کورونا ویکسین اور روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیا بطور انسانی ہمدردی فراہم کریں گے جبکہ ملاقات میں طالبان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کریں اور وسیع حمایت کے ساتھ ایک جامع حکومت بنائیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان کو شدید معاشی بدحالی اور ممکنہ انسانی بحران کا سامنا ہے اور اِسی لئے طالبان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ کی خواہش کے مطابق اور امریکہ کی تسلی و تشفی کے لئے اقدامات کریں جس میں انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے امدادی اداروں اور کارکنوں کو ضرورت مند علاقوں تک آزادانہ رسائی دینا شامل ہے۔ طالبان کی کوشش ہے کہ وہ عالمی برادری سے تعلقات بہتر بنائیں تاہم ایسا کرنے کیلئے وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں امریکیوں کو مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ بات امریکہ کو بخوبی علم ہے تاہم اُن کی کوشش اُس حد تک جانے اور امداد کے ذریعے طالبان قیادت کے روئیوں میں گنجائش (تبدیلی) پیدا کرنے کی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ امریکہ اور طالبان نپے تلے اقدامات کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملاقات کے باوجود‘ یعنی طالبان کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے بھی امریکہ نے واضح کیا ہے کہ مذکورہ ملاقات طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے متعلق نہیں تھی۔ امریکی وفد سے تعلقات کی نئی شروعات پر بات چیت کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغان مرکزی بنک کے منجمد اثاثوں سے امریکی پابندی ہٹانے اور انہیں بحال کرنے کا مطالبہ کیااور امریکہ سے انسانی امداد جاری رکھنے سمیت دوحا معاہدے کی پاسداری پر زور دیا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات خوش آئند ہیں اور ان کی کامیابی پر ہی خطہ میں امن کی ضمانت بھی مل سکتی ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے اپنا اہم کردار ادا کیا جسے عالمی سطح پر سراہا گیااتوار کو دوحا میں شروع ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فریقین کا انتظامی امور میں مداخلت نہ کرنے‘ ایک دوسرے کی سلامتی اور معاہدے کی پاسداری پر متفق ہونا اطمینان بخش ہے‘ جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ مذاکرات افغانستان میں امن و استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت افغانستان کی سالمیت کا احترام اور اس کی امداد کرکے ہی امن کی ضمانت لی جا سکتی ہے۔ طالبان کا مثبت رویہ دیکھتے ہوئے ان کے اثاثوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ امریکہ سمیت عالمی برادری طالبان کو تسلیم کرے اور انہیں فری ہینڈ دینے اور انتظامی امور میں اِن کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی کوشش کرے تاکہ وہ بھی عالمی برادری کی باتیں ماننے پر غور کریں۔