تالاب میں کنکر پھینکیں تو پانی کی لہریں دائرے بناتی ہوئی چاروں جانب پھیلنے لگتی ہیں۔لہروں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔کنکر نہ بھی ہو تو ہوا کی لہریں بھی ٹھہرے پانی میں دائرہ در دائرہ حرکت کرنے لگتی ہیں۔پہلی دوسری تیسری لہر اور پھر لہریں ہی لہریں۔اب سردی شروع ہوئی ہے تو مچھلیاں فارم ہاؤس کے تالابوں سے نکل کر بیچ بازار آ گئی ہیں۔ بازار کی دکانوں پر سج گئی ہیں۔وہ شعر یاد آنے لگا ہے ”مچھلیاں جال سمجھ کر جو آگئیں باہر۔ کھل گئے کس کے یہ دریا کے کنارے گیسو“۔انگریزوں نے کہا تھا کہ انگریزی کے جن مہینوں میں حروفِ تہجی کا آر آئے ان مہینوں میں مچھلی کھائیں۔ مگر ہم کسی کی اچھی بات سنیں ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ہم تو جون جولائی کے سخت گرمی کے مہینوں میں بھی مچھلی فروشوں کے ڈیرے پر جاتے آتے ہیں۔خیر اب کے تو آر والے مہینے شروع ہو چکے ہیں۔لہر در لہر مچھلیاں نکالی جا رہی ہیں۔سردی کی بھرپور لہر آئے گی تو ان کی مانگ اور فروخت میں اور زیادہ اضافہ دیکھا جائے گا۔اب کورونا کی لہر آئی۔پھر آئی گئی ہو گئی۔ پھر دوسری اور تیسری لہر نے ہمارے ماحول کو ہائی جیک کرلیا۔ اب کے تو کورونا ایمر جنسی والی صورتِ حال باقی نہیں رہی۔مگر ڈینگی کی لہر بھی تو آئی۔پھر وہ بھی ہمارے شہر میں بیماری کا وائرس مچھروں کے ذریعے اڑاتی ہوئی آئی ہے۔ہم تو لہروں کے نرغے میں ہیں ایک جاتی دوسری آتی ہے۔کورونا کے آخیر میں ایک لہر ہمارے گرد وپیش کی نظر بندی کو دوسری لہر کے سپرد کر کے چل دی۔ اب نئی اڑتی ہوئی سنی ہے کہ کورونا تو سالوں پہلے سے موجود تھا۔ مگر اس کا پتا اب چلا ہے۔خیر ا س پر تحقیق کی اب نئی لہر جنم لے گی۔ لہر پر لہر آرہی ہے۔پھر یہ کہ اب کچھ دنوں سے ایچ آئی وی ایڈز نے ارضِ وطن میں سر اُبھارا ہے۔پھر اس کے مریض سامنے آنے لگے ہیں۔مگر جو لہر آئی ہے اور نہیں جائے گی وہ مہنگائی کی لہر ہے۔ یہ سچ ہے کہ مہنگائی دوسرے ممالک میں بھی ہے پر وہاں ہر آدمی کی آمدن اس مہنگائی کے حساب سے زیادہ ہے۔یہاں تو فی کس آمدنی کا مسئلہ ہے۔آخر پیاری دھرتی کا ہوگا کیا۔ جو معاشرت چل نکلی ہے وہ جس راستے پر جا رہی ہے وہ راہ جدھر کو جاتی ہے کھڈوں ٹووں سے گذر کر جاتی ہے۔تالاب کی لہریں خاموش ہو جاتی ہیں رک جاتی ہیں۔ لہریں اگر اٹھیں بھی تو پرشور ہوں مگر شور ختم ہو جاتا ہے۔ سمندر بھی کبھی ساکت ہو جاتا ہے۔شور نہیں رہتا۔شور کی بات ہے آف شور کی بات نہیں۔ تالاب کی لہروں میں اگر ارتعاش پیدا ہو تو وہ اپنے آپ رک جاتا ہے۔شور کی اپنی لہریں ہوتی ہیں اور آف شور لہر بھی تو ہے۔مگر یہ افراتفری کی لہریں جو ایک کے بعد دوسری اور پھر اسی لہروں میں سے جنم لینے والی دیگر لہریں ہیں ان کے اختتام کی اگر کوئی نوید سنا دے تو کیا اچھا ہو۔مگر ”دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے“۔پھر فیض ہی کا وہ شعر دل کے دروازے پر پہلی سی دستک دینے لگتا ہے کہ ”بلا سے ہم نے دیکھا تو اور دیکھیں گے۔فروغ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم“۔اگر ہم نے خوشحالی نہ دیکھی تو ہماری اگلی نسلیں دیکھیں گی۔۔”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔ گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔خزاں کی شاخوں پر بہار کی کونپلیں کھل اٹھنے کے انتظار میں ہیں۔کوشش جاری رکھنا ہے۔آباد رہنا ہے شاداب رہنا ہے۔ہم ہوا کی منڈھیر پر رکھے ہوئے چراغ نہیں جو ہوا کی لہر کی نذر ہو کر اپنی روشنی کو خیر باد کہہ دیں۔ہم نے دیئے سے دیا جلانا ہے۔ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہے۔ ہاتھوں کی زنجیر سی بنا نا ہے آگے جانا ہے۔