بولی وڈ کے ورسٹائل اداکار نواز الدین صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ بولی وڈ کا سب سے بڑا مسئلہ اقربا پروری نہیں بلکہ رنگ و نسل کی بنیاد پر لوگوں کو مسترد کرنا ہے.
’نسل پرستی‘ کے خلاف کئی سال تک جدوجہد کی اور انہیں محض چھوٹے قد اور سانولی رنگت کی وجہ سے متعدد مرتبہ مسترد کیا گیا اور ان سے دوری اختیار کی گئی۔
نواز الدین صدیقی نے حال ہی میں ’بولی وڈ ہنگامہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ’ایمی ایوارڈز‘ کے لیے اپنی نامزدگی پر بات کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی بولی وڈ میں اقربا پروری اور نسل پرستی جیسے موضوع پر بھی کھل کر بات کی۔
نواز الدین صدیقی نے انٹرویو میں کمرشل فلموں سمیت آرٹ فلموں اور مواد کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ بھارت میں عام طور پر بڑے فلم ساز طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پانچ ہزار اسکرینز پر اپنی فلم چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی یومیہ کمائی 20 سے 30 کروڑ روپے ہوتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ فلموں کی کمائی کو اداکاری یا فلم کے موضوع سے نہ جوڑا جائے، کمائی کے معاملات الگ ہیں، اگر کوئی طاقتور فلم ساز 5 ہزار اسکرینز پر اپنی فلم چلائے گا تو اس کی کتے اور بلی کی کہانی بھی کروڑوں روپے کمائے گی۔
ورسٹائل اداکار کا کہنا تھا کہ اسٹریمنگ ویب سائٹس نے فلموں میں مواد کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ’نیٹ فلیکس‘ کی وجہ سے بھارتی مواد اور اداکاروں کو عالمی سطح پر دیکھا جانے لگا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’نیٹ فلیکس‘ سمیت دیگر اسٹریمنگ ویب سائٹس کو بڑے فلم سازوں کو خود سے دور رکھنا چاہیے تاکہ مواد کی اہمیت برقرار رہے، ورنہ بڑے فلم ساز روایتی طریقوں سے مواد تیار کرنے لگیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں نوازالدین صدیقی نے واضح کیا کہ بولی وڈ کا سب سے بڑا مسئلہ اقربا پروری نہیں بلکہ رنگ و نسل کی بنیاد پر لوگوں کو مسترد کرنا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ’نسل پرستی‘ کے خلاف کئی سال تک جدوجہد کی اور انہیں محض چھوٹے قد اور سانولی رنگت کی وجہ سے متعدد مرتبہ مسترد کیا گیا اور ان سے دوری اختیار کی گئی۔
نوازالدین صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ ’نسل پرستی‘ کے خلاف آج بھی لڑ رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ سانولی رنگت کی خواتین کو بھی اب ہیروئن بنایا جانا چاہیے۔