ایمان و یقیں بڑی دولت ہے۔ جنابِ ِرسالت مآبؐ کی حیات ِپاک اور سیرت ِمطہرہ انسانی تاریخ کا سنہرا باب ہی نہیں بلکہ علم و عمل کا ”بہترین نمونہ“ بھی ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے دنیا اور آخرت میں کامیابی و سرخروی ممکن ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کیلئے رشد و ہدایت اور رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ صرف ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیرت ِمطہرہ کا مطالعہ کیا جائے اور پھر مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آج کے حالات میں زندگیوں کو ’سراجاً منیرا‘ سے روشنی لے کر کیسے منور کیا جا سکتا ہے اور جہل و بداعتقادی کی چھائی تاریکیوں کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی نوعیت کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو عمر کے ہر درجے‘ ہر حصے اور ہر مرحلے میں جنابِ رسول مکرمؐ کی تعلیمات کے بارے میں ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو ان کیلئے مشعلِ ِراہ بنیں اور وہ ان کی مدد سے اپنے اقوال و افعال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خود کو سنوار سکیں۔ ظاہر ہے کہ اِس کیلئے نصاب ِتعلیم سے زیادہ بہتر کوئی دوسرا ذریعہ (اسلوب) نہیں ہو سکتا لیکن سیرت طیبہ کو زیادہ سے زیادہ نصاب ِتعلیم کا حصہ بنانے پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے! تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں ”تاریخی اقدام“ کرتے ہوئے قومی سطح پر ”رحمۃ للعالمینؐ اتھارٹی“ قائم کی ہے جو معاشرتی ڈھانچے میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اِس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ عشرہئ رحمۃ للعالمینؐ کی تقریبات کے سلسلے میں ہونے والی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ِطیبہ کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ زندگی میں 2 راستے ہوتے ہیں‘ ایک راستہ ناجائز دولت کمانے کا اور دوسرا سیرت ِالنبیؐ کو مشعل راہ بناتے ہوئے عمل کرنے کا ہے۔ اللہ ہمیں نبی کریمؐ (سیرت مطہرہ) سے سیکھنے کا حکم دیتا ہے۔“ ’رحمت للعالمین اتھارٹی“کے قیام کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ نبی کریمؐ کی سیرت پر عمل صرف عوام کیلئے مخصوص نہیں بلکہ حکمرانوں‘ بااثر اور طاقتور طبقات کے بھی سیرت ِطیبہ یکساں اہم و رہنمائی کا باعث اور ضرورت ہے برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب قانون و انصاف کا نظام بھی عدم توازن کا شکار ہے جو عام آدمی کیلئے سوہانِ روح ہے۔ اگر وزیراعظم واقعی چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی طور پر کوئی مثبت تبدیلی آئے تو اُنہیں چاہئے کہ اِس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے وفاقی اور صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کے اختیارات اور اخراجات کم کریں۔ سیرت ِمطہرہ ؐ کا مطالعہ اور اِس کی روشنی میں اعمال و کردار کا جائزہ ’مثبت تبدیلی‘ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ سیرت مطہرہ کی پیروی میں ہی تمام دنیاوی اور اخروی کامیابیاں پوشیدہ ہیں موجودہ حالات میں معاشرے کو جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے سیرت پاک کی روشنی میں ان مشکلات اور مسائل سے نکلا جا سکتا ہے۔