کیسی چلی ہے اب کے ہوا 

معلوم نہیں کہ جوکچھ اب ہے وہ پہلے بھی تھا۔کیونکہ باوجود جدید ٹیکنالوجی اور قانون سازی کے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔ جرائم کے تدارک کا ہر طرح سامان دستیاب ہونے کے باجودان میں کمی تو کیا آئے گی الٹا بہتات بہت ہے۔جدیدیت سے ہر کام شفاف ہو رہا ہے۔مگر جو متضاد عناصر ہیں وہ ہمہ وقت اپنی شر انگیزیوں میں رو بہ عمل ہیں۔اب بندہ سوشل میڈیا دیکھے یا ٹی وی دیکھے۔اخبارات کا مطالعہ کریں یا رسالوں سے دل بہلائیں۔ سوشل میڈیا کی طرف عوام کا رجحان بہت زیادہ ہے۔مگر اس چکاچوند میں کوئی فیس بک کھولے بیٹھا ہے۔ وہاں مورچہ بنا ئے دوسروں پر تابڑ توڑ حملے کررہا ہے۔اس کے علاوہ کوئی میسنجر کی منڈھیر سے جارحانہ پن کو اپنائے اپنی بندوق کو نشانے کی طرف سیدھا کئے ہے۔صبر تو نام کو نہیں۔ایک دوسرے پر تیروں کی طنز کی بارش ہے۔پھر کسی نے جیسے وٹس ایپ کا لائسنس حاصل کیا ہے۔ وہاں سے مورچہ بندی کر کے صف بندی ہو رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی سی ہانک رہا ہے۔اپنی اپنی بین بجا رہا ہے۔اپنا راگ الاپ رہا ہے۔کوئی سنے یا نہ سنے۔کوئی دیکھے یا نہ دیکھے مگر دکھلاتے ہیں او رسناتے ہیں۔شعر پھر یاد آیا”اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب۔ اتنا نہ یادآ کہ تجھے بھول جائیں ہم“۔ یہ سوشل میڈیا کے تین گوشے نہیں۔اس ترکش میں اور تیر بھی ہیں جو کاری لگتے ہیں اور بندے کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔یوٹیوب بھی اس میں شامل ہے۔پھر آفاتِ زمانہ ایک تو نہیں۔ اقبال کا مصرع ہےِ”زلزلے ہیں بجلیاں ہیں قحط ہیں آلام ہیں“۔ اب ہر شہری درجنوں ویب سائٹ استعمال کرنے سے قاصر ہے۔کیونک کسی کے پاس اول تو وقت ہی نہیں۔ زیاد ہ تر نفوس تو اپنی روٹی پانی کے حصول کی فکر میں تپتی دھوپ کے نیچے جو ں برف کے باٹ گھل رہے ہیں۔اگر کوئی فارغ ہے اور نیٹ والا موبائل ہاتھ میں ہے تو بس نیٹ کے کسی ایک جلوہ کو دیکھتا ہوگا۔ اب وٹس ایپ ہی سنبھالا نہیں جاتا۔پھر وقت کہاں جو بندہ دوسری اطراف کی جانب رجوع کرے۔وٹس ایپ پر اگر گروپ ہوں اور بندہ کسی ایک گروپ کا حصہ بھی کم از کم ہو تو کام سے گیا۔غالب کا شعر ہے”عشق نے غالب نکما کر دیا۔ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے“۔وٹس ایپ کا خبروں کے حوالے سے گروپ ہو تو بس جو رہی سہی کسر ہے پوری ہو جاتی ہے۔خبروں کا طومار ہے۔ ہر کوئی اس پلندے میں گرفتار ہے۔ پل پل کی خبریں تحریر میں اور ویڈیو کے ساتھ بمعہ اضافی تصویروں کے لوڈ ہو رہی ہیں۔ بندہ کیا دیکھے اور کیا نہ دیکھے۔جینے مرنے کی خبریں‘ایکسیڈنٹ کی‘ احتجاج کی۔کیا کچھ ہے جو یہاں نہیں ملتا۔بندہ ایک گروپ کو بھی وقت نہیں دے پاتا۔چیدہ چیدہ خبریں دیکھے اور آگے بڑھ جائے۔بعض دوست حضرات تو مسینجر کو ہاتھ تک نہیں لگا پاتے۔بعض تو وٹس ایپ بھی کھولتے ہیں تو تین چار دنوں کے بعد۔ تھوڑی دیر کیلئے اس کو ٹچ ہی تو کرتے ہیں۔وٹس ایپ کے میسیج اور موویاں تصویریں وغیرہ ٹک کے دو نیلے نشانوں کے ابھر کرسامنے آنے کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ مگر وہاں ان صاحب کو وقت ملے گا تو وٹس ایپ کی طرف آئیں گے۔ موبائل تو اوپن ہوگا مگر سوشل میڈیا کاکوئی ایک پہلو اگرپانچ دس منٹ کیلئے کھول لیا تو سمجھ لو بہت تیر مار لیا۔مگر گروپ میں جو خبریں اپ لوڈ ہوتی ہیں ان کو دیکھ کر تو زندگی سے بیزاری ہو جاتی ہے۔یہ لوگ بھلے چنگے پہلوؤں کو چھوڑ کر حادثات اور لاشوں کی تصویریں ہی شیئر کرتے ہیں۔ زندگی کی سفا ک حقیقتیں آشکارا کرتے ہیں۔ہر پل ہر گھنٹے او رہر روز یہی تماشا لگا رہتا ہے۔ ایک نہیں درجنوں یار دوست ہیں جو زندگی کے ناخوشگوار واقعات او رپہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں۔جس سے دیکھنے والا بھلا چنگا آدمی ذہنی مریض بن جاتا ہے۔وٹس ایپ کے بعض گروپ کسی موبائل والے کی ضرورت ہوتے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ حضرات ناخوشگواری کو بھی دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔جب یہ سب کچھ نہ تھا تو زندگی کتنی خوشحال تھی۔ اس وقت بھی حادثات ہوتے ہوں گے۔مگر کسی کو معلوم نہیں ہو پاتا تھا۔ کسی چیز کی جانکاری بھی بہت تکلیف دہ ہے۔اسے آگاہی کا عذاب کہتے ہیں۔ گذرے زمانے میں اگرگاؤں میں کوئی اپنی موت مرتا تو تین دن کے بعد قاصد جس کو ٹاسک حوالے ہوتا شہر تک پہنچتا۔ اس رشتہ دار کی وفات کی خبر سناتا۔کہتا فلاں صاحب کا انتقال ہو اہے آج تیسرا دن ہے۔اس پر شہر والے افسوس کرتے۔ پھر میت والے گھر پہنچتے پہنچتے تین دن اور لگ جاتے۔ مگر اب توخطا معاف جاں بہ لب مریض کی ویڈیو آنا فاناً ہزاروں میل دور پہنچ جاتی ہے اور اپنے ساتھ افسردگی اور غم کے بادل بھی لاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی پلیٹ فارم ہو، خبریت اپنی جگہ مگر مثبت اور خوش کن حقائق کو ایک دوسرے سے شیئر کیا جائے اور بے سکونی کی جگہ سکون اور خوشی کو ماحو ل میں پھیلایا جائے۔