خود غرضی یا حماقت

امریکہ کا مقصد کیا پورا ہوا اور اس کی فوج افغانستان سے کیا نکل گئی کہ اس نے پھر پاکستان سے سردمہری دکھانا شروع کردیا ہے۔ تو کیا یہ ہمیشہ پاکستان سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کرنے اور ناکامی پر پاکستان سے سردمہری دکھانے، نظرانداز کرنے یا بے بنیاد الزام تراشیوں سے اسے زیر دباؤ لانے یا زچ کرنے کی پالیسی پر ہی عمل کرتا رہے گا یا کبھی پاکستان کی قدربھی کریگا۔ سوال یہ بھی ہے اگر امریکہ اپنے مفادات کے مطابق پالیسی بناسکتا ہے تو یہ حق کسی دوسرے ملک کو کیوں نہیں دے رہا؟پاکستان کے دو روزہ دورے پر آنے سے پہلے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا "وہ مخصوص اور محدود مقصد کے تحت  اسلام آباد جارہی ہیں، امریکہ پاکستان کے ساتھ وسیع تر تعلقات کا خواہاں نہیں اور اس کے ساتھ تعلقات بہت محدود رکھنا چاہتا ہے۔" اس نے یہ غیر ذمہ دارانہ بیان بھارت میں دیا اور ساتھ ہی اقوامتحدہ کی سلامتی کونسل کی بھارتی صدارت کی بھی بہت تعریف کی اگرچہ بھارت نے امریکہ کے غیر نیٹو اتحادی پاکستان کو افغانستان پر سلامتی کونسل کے ہر اجلاس سے باہر رکھنے کی مسلسل کوششیں کیں۔ بین الاقوامی تعلقات مفادات کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں یہ تو معلوم ہے مگر سفارت کاری اور بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان جیسے پرانے اتحادی کے خلاف اس کے مخالف بھارت کی حمایت کرنا خود غرضی اور حماقت کی انتہا ہے۔ اگرچہ بعد میں شرمن قریشی ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں پاکستان کی خدمات کو سراہنے، تعلقات کو بڑھانے اور دوریوں کو ختم کرنے کی باتیں کی گئیں مگر پاکستان بارے امریکی ذہنیت ایک دفعہ پھر ظاہر ہوگئی ہے۔ وینڈی شرمن کو بتایا گیا پاکستان خطے میں امن اور ترقی کیلئے امریکہ سے وسیع اور دیرپا تعلقات چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ وزیراعظم نے بجا طور پر ملاقات نہیں کی۔صدر بائیڈن نے ابھی تک وزیر اعظم عمران خان سے بات کیلئے وقت نہیں نکالا اور بظاہر امریکی ایما پر ہی آئی ایم ایف پاکستان پر پیکج کیلئے ٹیکس کی چھوٹ کم کرنے اور تیل اور بجلی کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے۔پاکستان اور امریکہ کے بہتر تعلقات خواہ امریکہ کی ضرورت نہ ہو لیکن اس خطے کو پرامن بنانا، امریکی مداخلت سے پیدا شدہ مسائل کے حل اور افغانستان کی تعمیر نو میں مد دینا اور اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا امریکہ کا اخلاقی فرض ہے اور اس کیلئے اسے اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان کے خدمات کی قدر کرنا ہوگی اور اسے ساتھ رکھنا ہوگا۔امریکی کانگریس میں 22 سینیٹرزنے  نیاایک بل پیش کیا ہے جس میں بائیڈن انتظامیہ سے طالبان حکومت کے قیام میں مدد کرنے والے ملکوں کے نام نام بتانے کا کہا گیا ہے۔ کیا اس بات کی تحقیق بھی نہیں ہوجانی چاہئے کہ کیا امریکہ نے ہی یہاں پر عسکریت پسندی کی داغ بیل ڈالنے کی شروعات نہیں کیں اور اس بار بھی کسی بین الافغان معاہدے سے پہلے انخلا کرکے ان کی حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار نہیں کی؟ اور یہ تحقیق بھی کی جانی چاہئے کہ ایک ہزارارب ڈالر سے زیادہ خرچے اور تربیت کے بعد بھی افغان فوج کیوں طالبان کا مقابلہ نہ کرسکی؟ افغان جنگ پر خرچ ہونے والے دو کھرب ڈالرز میں کن امریکی کمپنیوں اور اہلکاروں نے مال سمیٹا؟ کن افغان سیاستدانوں اور کمانڈروں نے اربوں ڈالرز کا زیادہ تر حصہ ہڑپ کیا؟ اور امریکہ نے ان بیس سالوں میں افغانستان سے یورینیم اور دیگر قیمتی دھاتوں کی کتنی برآمدات کیں؟دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مناسب فیصلے کرنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔ اس کے پڑوس میں اگر اس کی ایک دوست حکومت قائم ہو تو وہ اس پر کیوں خوش نہ ہو اور کیوں پریشان ہو؟ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہاں اور دوسرے کئی ممالک میں ہمیشہ اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں نہیں کیں۔؟ اور اگر طالبان کی مخالفت اس وجہ سے کی جارہی ہے کہ یہ غیر جمہوری ہے تو کیا یہ ممالک دنیا بھر میں کئی غیرجمہوری حکومتوں کے  ساتھ بھرپور تعلقات نہیں رکھتے رہے ہیں؟ افغانستان میں امریکہ کا جاسوسی نظام ختم ہو گیا ہے، اشرف غنی حکومت کے برعکس نئی افغان حکومت امریکہ کی دوست نہیں، روس اور چین اسے گھاس نہیں ڈال رہے، بھارت مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ وسطی ایشیائی ریاستیں روس کے زیر اثر ہیں۔ اس لیے امریکہ اگر طالبان سے تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے تو وہ چین، روس، قطر، ترکی اور پاکستان میں سے کسی ایک سے مدد لے گا اور ان سب میں پاکستان اس کیلئے زیادہ مفید اور سستا پڑے گا جو افغانستاں کا پڑوسی ہے اور جس کے طالبان حکومت سے اچھے رابطے ہیں۔ امریکہ جاسوس ڈرون طیارے اڑانے یا انسداد دہشت گردی کاروائی کیلئے پاکستان کی فضائی حدود اور اڈے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان امریکہ سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا مگر وہ امریکہ کو کوئی فوجی بیس فراہم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور یہ ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ یہ اگر امریکہ کو اڈے یا راہداری دیتا ہے تو اس کے ردعمل میں یہاں دہشت گردی پھر شروع ہوجائیگی اور افغان طالبان، چین اور روس وغیرہ بھی ناراض ہوجائیں گے۔ اگرچہ روس اور چند وسطی ایشیائی ریاستوں نے امریکہ کو فوجی اڈوں کے پیشکش کی ہے مگر امریکہ صرف پاکستان سے اڈے چاہتا ہے۔ امریکہ پاکستان کی مجبوریوں سے انجان نہ بنے۔پاکستان جب امریکہ اور دنیا سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ طالبان سے رابطے اور تعاون بڑھائے تو اس کا مطلب  یہ ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور اگر ان کی حکومت کمزور یا ناکام ہوگی تو افغانستان پھر بین الاقوامی دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا۔ پاکستان سمجھتا ہے طالبان سے اختلافات کے نام پر اگر افغانستان کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا اور ان کی حکومت کمزور ہوگئی تو خطہ ماضی کی طرح پھر افغان خانہ جنگی سے بہت نقصان اٹھائے گا۔ امریکہ کو جلد یا بدیر طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا اس لیے یہ جتنا جلد ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے. لیکن ایک بات واضح رہے امریکہ اگر چین کو شکست دینا اور گھیرنا چاہتا ہے تو پاکستان اس کام میں کبھی اس کا اتحادی نہیں بن سکتا۔افغان جنگ میں شرکت کی وجہ سے 70 ہزار پاکستانی  جان سے گئے اور اس کا 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ملک بھر میں خود کش حملے اور بم دھماکے ہوئے۔ افغانستان میں امریکی پالیسیوں اور مداخلت کی وجہ سے پاکستان میں انتہاپسندی، بدامنی اور دہشت گردی آئی۔ لیکن پاکستان نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرکے شکست دی اور دنیا کو محفوظ بنانے میں مدد دی۔ پاکستان کی ان کاموں اور قربانیوں کی اگر کوئی تعریف نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے لیکن ہم دوسروں کو اپنی کمزوریوں، نااہلیوں اور ناکامیوں کا ملبہ اس پر گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔