تپش جو گرمی میں تھی روبہ زوال ہے۔ہر اک موسم کا اپنا حال ہے۔اب جو شہری گرما کے ستائے ہوئے تھے اُبھرنے لگے ہیں۔دکاندار ہوں یا نوکر پیشہ۔سب کو موسم کی اس انگڑائی نے چست کر دیا ہے۔گرمیوں میں بھی گھروں اور پلازوں کی تعمیر ہوتی رہی۔صبح تڑکے ہی مزدور اپنے تیشے ہتھوڑیاں کوئی کدال اور رنگ کی برشیں لے کر آسمان کو اٹھتی ہوئی عمارتوں کے سنگ اپنی محنت کے پسینے بہاتے رہے تھے۔پھر دوپہر ڈھلے ان کو چھٹی مل جاتی تھی۔مگر اب تو خیر سے موسم نے جو روپ بدلا تو یہ تعمیری سرگرمیاں زیادہ ہو چلی ہیں۔کیونکہ عام طور سے کوئی خاص گھر چھ مہینوں میں تیار ہو جاتا ہے۔سو اگر اس وقت اکتوبر سٹارٹ ہوا ہے تو مارچ سے پہلے یا اس کے بعد تک گھر بن کر تیار ہو جائیں گے۔ کیونکہ گھر بنانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ وہاں تعمیر کے مختلف کام ہو تے ہیں۔مگر کوئی بنا ہو اگھر خراب کرنے میں ایک گھنٹہ بھی نہیں لگتا۔سڑکو ں پر ٹریکٹر ٹرالیوں کی بھرمار تو گرمی کے موسم میں بھی تھی۔ ان کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ جہاں جی چاہا بھاری بھرکم گاڑی میں اینٹیں لاد کر چل دیئے۔کوئی نیچے آگیا تو ان کی بلا سے۔جن کی مونچھیں ابھی ہونٹوں سایہ نہ دیتی ہوں وہ بھی ٹریکٹر کی بڑی ٹرالیاں بلکہ ٹرالر بھی چلا رہے ہوتے ہیں۔چونکہ وہ جوانی کی چوکٹھ پہ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے انھیں ڈرائیونگ کی بھول بھلیوں سے آگاہی نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ تنگ سے راستوں میں بھی تیز رفتاری سے جاتے ہیں۔سو جس کو نیچے لے آئے سو لے آئے۔ ان دنوں چونکہ موسم سرما کے آثار شروع ہو گئے ہیں۔اس لئے تعمیراتی کاموں میں تیزی نمایاں ہو چلی ہے۔سڑکو ں پر دندناتی ہوئی ٹریکٹر ٹرالیوں میں اینٹ بجری سیمنٹ لا د کر گلی محلوں میں زیرِ تعمیر گھروں کی بنیادوں پر پہنچائی جا رہی ہیں۔جو لوگ گرمی کی حبس میں سست روی کا شکار تھے وہ بھی اب اپنے پلاٹوں کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ کہیں تو بنیادیں کھودی جا رہی ہیں کہیں ڈی پی سی ڈالی جا رہی ہے۔کہیں اینٹ پہ اینٹ رکھ کر دیواریں اٹھائی جا رہی ہیں۔ مکانات ضرور بن رہے ہیں۔مگر گھر کہیں کہیں بن پاتے ہیں۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ”اینٹ پہ اینٹ سجاکر دیکھا۔ نہ بنا گھر جو بنا کر دیکھا“۔ وہ اس لئے کہ مکانات تو بن جاتے ہیں۔ مگر اندر کی فضا جسے گھر کہتے ہیں وہاں اگر نفرت کی بنیاد بھی ڈال دی جائے توموتیوں کی بہت سی مالائیں دانہ دانہ ہو کر یہاں وہاں موتی گراتی ہوئی بکھر جاتی ہیں۔اصل میں مجھے کہنا کچھ اور ہے۔ مگر بیچ میں خیالا ت کا بہاؤ سیلانی طبیعت کے کارن اس سیلابی ریلے کو اپنے کناروں سے ہٹا کر کہیں اور ہانکنے لگتا ہے۔تعمیر بہت اچھا ہے۔خواہ کسی گھر کسی عمارت کی ہو یا اندرون کسی نظام کی ہو۔ جس میدان میں بھی ہو قابلِ تعریف ہے۔کیونکہ تعمیر تو تعمیر ہے تخریب یا خرابی تو نہیں۔مگر ٹرک اور ٹرالیاں ٹرالے جو سڑکوں پر دوڑتے پھرتے ہیں۔لدے ہوئے اور بھاگتے ہوئے۔ان کے ڈرائیور حضرات سے گذارش ہے کہ اپنے سر کے اوپر بجلی کی تاروں کی طرف بھی دھیان رکھیں۔ بعض ڈرائیور رات بارہ کے بعد تعمیر کا سامان لاتے لے جاتے ہیں۔ رات کو ساڑھے بارہ بجے طویل قبرستان کے پاس ایک سڑک سے گذر ہوا۔ غور کیا تو عین راستے میں بجلی کے پول سے آئی ہوئی ایک سروس تار گری پڑی تھی۔جو سڑک پار کے ایک گھر کے مکین نے حاصل کر رکھی تھی۔ میں رکا اور سوچا او رکہا جانے دو یار۔مگر نہیں اندر کے انسان نے کہا نو نو ایسا نہیں۔سو میں واپس مڑا اور چند گز دور اس سنسان راہ کی ایک مارکیٹ کے چوکیدار کو بلوایا۔ وہاں تین آدمی چوکیداری پر تعینات تھے۔ایک نے اپنی ٹارچ اٹھائی اور میرے ساتھ آیا۔ تار کو زمین پر بچھے ہوئے دیکھا تو افسوس کیا۔کہنے لگا اوہو یہاں سے ابھی ایک ٹرک گذرا ہے۔جس نے یہ تار گرائی ہوگی۔ یہ لوگ خیال نہیں کرتے اور اپنے مطلب کو حل کرنے کیلئے سب کچھ برباد کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔میں نے کیس اس کو حوالے کیا اور گھر کی راہ لی۔اس نے تار کو اٹھا کر سڑک کے کنارے ایک جگہ رکھ کر اس پر اینٹیں رکھ دیں۔گھر آتے ہی میں نے وہاں کے قریب گھر میں ایک دوست کو وٹس ایپ پر آواز کا پیغام چھوڑ دیا کہ آپ کے گھر کے باہر تار گری ہوئی ہے خیال کریں۔دوسرے دن اس نے نیند سے بیدارہونے کے بعد وائس میسیج سنا تو شکریہ ادا کیا۔ہمارا بجلی کی تاروں کا نظام بہت پرانا کٹا پھٹا ہے۔تاریں سروں کے اوپر اور ننگی تاریں لٹک رہی ہیں۔ جو کسی بھی حادثہ کو جنم دے سکتی ہیں۔