مردم شماری

مردم شماری کبھی بھی آسان عمل نہیں ہوتا بلکہ اِس کی انجام دہی میں غیرمعمولی افرادی و مالی اور تکنیکی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے اور چونکہ اِس کا ایک تعلق (پہلو) سیاست سے بھی ہے اِس لئے خانہ اور مردم شماری کے نتائج سے اختلاف رہتا ہے۔ سال 2017ء میں وفاقی ادارہئ شماریات کی جانب سے کی گئی پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے حتمی نتائج 18 مئی 2021ء کے روز پاکستان بیورو آف سٹیکسٹکس کی ویب سائٹ (pbs.gov.pk) پر جاری کئے گئے جن کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 80 ہزار (207.68 ملین) ہے اور اِس آبادی میں میں سالانہ 2.4 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دس کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ مرد اور دس کروڑ تیرہ لاکھ سے زیادہ خواتین پر مشتمل پاکستان کی کل آبادی میں خواجہ سراؤں کی کل آبادی 3 لاکھ 21 ہزار 744 بتائی گئی جبکہ اِن مجموعی اور صوبائی و اضلاع اور دیہی علاقوں سے متعلق اعدادوشمار سے متعلق ہر مکتبہئ فکر کی جانب سے تحفظات سامنے آئے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے 16 دسمبر 2016ء کو مرحلہ وار مردم شماری کرنے کی اجازت دی تھی اور اِس مقصد کیلئے 200 سے 300 گھروں اور اِن کی آبادی کو ٹکڑوں (سینسیز بلاکس) میں تقسیم کیا گیا اور یوں سولہ لاکھ اَسی ہزار بلاکس بنائے گئے‘ جن کے نقشہ جات اور حدود کا تعین کرنے کے بعد اِس عمل میں صوبائی و ضلعی انتظامیہ اور سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو شریک کیا گیا تاہم اِس قدر بڑی کوشش کے باوجود بھی مردم شماری کے نتائج جامع اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یکساں قابل قبول نہیں رہے۔ یقینا بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی کے ملک میں مردم شماری آسان نہیں اور اس کام کیلئے ملک بھر میں مختلف نوعیت کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں جبکہ طویل اور مہنگے عمل کے بعد یہ سلسلہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ مردم شماری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل نے دینا ہوتی ہے جس کیلئے کم از کم ایک سے دو ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے پھر مردم شماری کے کامیاب انعقادکے بعد اس کے نتائج کو تسلیم کرانا بھی سیاسی لحاظ سے مشکل ترین ہوتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کے مردم شماری پر تحفظات رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود الیکشن کمیشن کا وفاقی حکومت سے آئندہ انتخابات سے پہلے نئی مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرنا اور مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کر کے انتخابات کرانا ایک مشکل عملمعلوم ہوتا ہے کیونکہ قومی و صوبائی نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کا ایک پیچیدہ‘ مشکل اور طویل مرحلہ ہے۔ الیکشن کمیشن سے پہلے یہ بات وفاقی وزیر منصوبہ اسد عمر بھی کہہ چکے ہیں کہ 2023ء کے عام انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے اور دوہزارتیئس کے اوائل میں مردم شماری مکمل کرنے کا ہدف ہے‘ اس کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ آئین کے مطابق ایک سے دوسری مردم شماری کے درمیان دس سال کا وقفہ ہونا چاہئے اور یوں 2017ء کے بعد اگلی مردم شماری 2027ء میں ہونی چاہئے لیکن وفاقی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ مردم شماری 2023ء کے عام انتخابات سے پہلے مردم شماری ہونی چاہئے یعنی سال 2021ء کے آخر میں شروع کر کے 2022ء کے وسط تک مکمل کر جائے اور دوہزاربائیس کے اختتام سے پہلے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا جائے تاکہ اُمیدوار تیاریاں کر سکیں لیکن ایسی خانہ و مردم شماری ممکن بنانا عملاً ناممکن ہے کہ جس پر سیاسی جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر کا اعتراض نہ ہو۔یہی صورتحال انتخابی فہرستوں سے متعلق بھی ہوتی ہے کہ اُن پر بھی اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ عام انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور نئی مردم شماری کے تحت نئی انتخابی حلقہ بندیاں وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہیں ووٹروں کی فہرستوں سے متعلق بھی نئی حکمت عملی وضع ہونی چاہئے کہ اگر کوئی ووٹر اپنے منتخب حلقے کے علاوہ کسی بھی دوسرے حلقے میں ووٹ ڈالنا چاہے تو آن لائن ووٹنگ کے ذریعے وہ ایسا کر سکے لیکن مردم شماری ہو یا نئی انتخابی حلقہ بندیاں‘ حکومتی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ اس حوالے سے قانون ساز ایوانوں کے اراکین (پارلیمان) کو اعتماد میں لے تاکہ ایک متفقہ فیصلہ سامنے آئے۔ ایسا نہ ہو کہ اربوں روپے کی لاگت سے نئی مردم و خانہ شماری اور انتخابی فہرستوں کو مرتب کرنے سے نئے اختلافات  پیدا ہوں اور مہنگائی و بیروزگاری کے دور سے گزرنے والا ملک اور اِس کی معیشت ایسی کسی بے نتیجہ مہنگے عمل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔