شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح 

روز ایک نہ ایک پتا گر جاتا ہے۔بلکہ پتے روز گرتے رہتے ہیں۔آئے دن گرتے ہیں۔کیونکہ یہی اس دنیا کے چمن کا حسن ہے۔پرانے گریں گے تو نئے آئیں گے۔ نئے آنے والوں کیلئے درختوں کی شاخیں پرانے پتوں کو ترک کر دیتی ہیں۔یہ شاخسار پھر سے نیا اور سبز لباس پہن لیتے ہیں۔ایک پتا نہ گرے تو اس کی جگہ دوسرا کہاں سے آئے۔ یہی سفاک حقیقت ہے۔جس کو برداشت کرنا ہے۔اس کو اپنی زندگی کے شب و روز میں مقام دینا ہے۔ورنہ تو زندگی جو دشوار ہے اور بھی دشوار ہو جائے۔پتے کیوں نہ گریں گے۔آج کل خزاں کا موسم ہے۔جو ستمبر کے درمیان سے شروع ہوتا ہے اور فروری کے میا ن تک رہتا ہے۔اس کو ہم سردی کا موسم بھی کہتے ہیں۔اصل میں سخت سردی کی یخ ککر ہوائیں پتوں کو شاخوں پر جما ہوا رہنے نہیں دیتیں۔ہوا تیز ہو تو پتے کیاسرِ شاخ جمے رہیں گے۔اکتوبر کا مہینہ چل رہا ہے۔ ویسے مون سون کے موسم کا اختتام ہو چکا ہے۔پھرماہ ِ رواں تو ہوتا ہی خشک ہے۔اس میں خزاں مکمل طور پر اپنے ڈیرے ڈال چکی ہوتی ہے۔پھر سردی جو اٹھارہ بیس سال پہلے یکم ستمبر سے شروع ہو جاتی تھی اب تو پندرہ اکتوبر سے شروع ہوتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور زمین کا درجہ حرارت اور پھر ہماری اپنی دھواں دیتی غلطیاں زمین کو اضافی طور گرم کئے ہوئے ہیں۔سردی کا حقیقی آغاز آج سے ہو چکا ہے۔مگر کیا کریں خزاں کے پتوں کا ذکر تو لازمی ہوگا۔کیونکہ یہاں تو ”زرد پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں۔ شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح“۔ ہماری بہت پیاری شخصیت سردار فاروق احمد جان بابر آزاد ہم سے بچھڑ گئے۔ ہفتہ دس دن بیمار رہے اور بسترعلالت کو کیا چھوڑتے دنیا ہی چھوڑ گئے۔ڈی آئی جی کے عہدے سے فارغ ہوئے تھے۔ مگر پشاو رکی ادبی محفلوں کے روح ِ رواں تھے۔ بزمِ بہار ِ ادب کے سرپرست تھے۔اقبال کا شعر بیک گراؤنڈ میں سنائی دے رہا ہے۔”جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں۔ کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی“مگر دریا کے دو کناروں کی طرح کہ دورتلک جائیں مگر قرب کی خوشبو نہ دے سکیں۔جیسے ریل کی دو پٹریاں ہوں جو قریب ہوں مگر کبھی ملتی نہ ہوں۔فاروق جان اس طرح تھے کہ جیسے بڑے بھائی ہوں۔مگر ”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔ گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔دنیا ہے اس دنیا میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔جو آیا وہ جائے گا۔آناتو نمبر وا رہے مگر جانا بغیر نمبر کے ہے۔ہمارے ہاں خزاں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔مگر خزاں کا اپنا حسن ہے۔خزاں کے اپنے پھول ہیں جو اس موسم میں کھلتے ہیں۔ ہمارے ہاں خزاں کی قدر نہیں۔مگر باہر ملکوں میں جہاں ٹھنڈ پڑتی ہے۔وہاں خزاں کے موسم کی رُت سے بہت تفریح اخذ کی جاتی ہے۔عبدالحمید عدم کا کیا خوبصورت شعر ہے ”بہارو خزاں کم نگاہوں کے وہم۔ برے کیا بھلے سب زمانے ترے“۔یہ تو کم نگاہی،کور چشمی اور دل ِ بینا کا نہ ہونا ہے کہ ہمارے ہاں پھر جانے کب سے اس دھرتی پر موسموں کے حوالے سے پت جھڑ کو بہار کے مقابلے میں ترجیح نہیں دی جاتی۔ چونکہ ہر موسم کے اپنے اپنے ثمر اور اپنے ا ثرات ہیں اس لئے ہم لوگ موسموں کی رعنائی اور دل پزیدی کے محتاج ہیں۔موسم انسا ن کے اندرون پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ہمارے ہاں کے چار موسم گرمی سردی خزاں بہار اپنے اپنے روپ سروپ میں بہت اچھے لگتے ہیں۔ہم یہاں گرمی کے موسم کی تلخی سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ مگر جو ٹھنڈے ملک ہیں وہ گرمی کی تپش کیلئے ترستے ہیں۔جرمنی میں ہمارے دوست ہیں۔ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا ہمارے ہاں تو سردی رہتی ہیں۔مگر ہم گرمی کے موسم کو انجوائے کرنے کیلئے قریب قریب ترکی کے ملک میں چلے جاتے ہیں۔وہاں ہم گرمی میں تفریح کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ ہمارے ہاں کے لوگ جرمنی کے موسم کی یخی کیلئے رال ٹپکاتے ہوں گے۔مگر وہاں کے لوگ ہمارے ہاں کی گرمی کیلئے للچاتے ہیں۔آدمی تو آدمی ہے اور کسی حال میں خوش نہیں۔