تعاون‘ عدم تعاون

افغانستان میں حالات کے بگاڑ کی وجہ سے خطے کے تمام ممالک بے چینی کا شکار ہیں۔بالخصوص ہمسایہ ممالک نئی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنی اپنی سطح پر بھی اقدامات کررہے ہیں اور اس سلسلے میں مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کے لئے ان ممالک کے رہنما ایک دوسرے سے مشاورت اور ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔ اسی حوالے سے جمہوری اسلامی ایران فوج کے سربراہ میجر جنرل باقری پاکستان تشریف لائے اور یہاں سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں اور مشاورت کی‘ جو غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان اور ایران ایک دوسرے سے خوشگوار اور مضبوط تعلقات رکھتے ہیں اور مختلف حوالے سے ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے رہتے ہیں۔افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور ایران کے مؤقف میں مشترکات اور دونوں کا ایک دوسرے سے تعاون ضروری ہے کیونکہ دونوں ہی مسلمان ممالک ہونے کے ساتھ افغانستان کے ہمسائے اور اِس کے ساتھ ایک نظریاتی و طویل برادرانہ تعلق بھی رکھتے ہیں۔افغانستان کی صورتحال پر بین الاقوامی برادری بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کو اس نئی صورتحال میں افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں اگر حالات مزید بگڑے تو ان کے اثرات صرف اس کے ہمسائیوں (بالخصوص پاکستان و ایران) تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لئے عالمی برادری کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے اور ماضی میں بھی اِس کی امداد غیرمشروط رہی ہے۔ اسی لئے بہت سے ممالک اور عالمی ادارے افغانستان میں صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لئے پاکستان پر ہی انحصار کررہے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو امن دشمن عناصر صورتحال بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے پاکستان میں بھی ایسی کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے قومی سلامتی کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پُرعزم ہے اور کسی بھی قسم کی رکاوٹیں ہمارے اس عزم کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ہر ممکن مدد بھی فراہم کرنی چاہئے تاکہ ماضی کی طرح پاکستان افغانستان کے سنگین حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا بوجھ اکیلا ہی نہ ڈھوتا پھرے۔پاکستان اور ایران نہ صرف ہمسایہ بلکہ برادر اسلامی ممالک ہیں۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے مضبوط تعلقات خطے میں بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں اور کئی مشترکہ دشمنوں کو یہ پیغام بھی دے سکتے ہیں کہ کسی بھی مشکل وقت میں یہ دونوں مل کر اس دشمن کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ اب افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے حوالے سے پاکستان اور ایران یکساں طور پر تشویش کا شکار ہیں کیونکہ دونوں افغانستان کے ہمسائے ہیں اور افغانستان میں کسی بھی منفی صورتحال کا اثر دونوں پر ہی پڑے گا۔ اِس سے قبل بھی پاکستان کے فیصلہ سازوں کی دوشنبہ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات ہو چکی ہے جس میں وزیراعظم عمران خان نے دونوں ملکوں میں تجارتی‘ معاشی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایران کی افغانستان کے ساتھ 921 کلومیٹر سرحد ہے جبکہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2 ہزار 670 کلومیٹر طویل سرحد ہے‘ جسے محفوظ بنانے کے لئے خاردار تاریں بچھا کر 13فٹ بلند دیوار بنائی گئی ہے جو اِس متنازعہ عالمی سرحد کے آر پار غیرقانونی آمدورفت روکنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں بدامنی کی بھاری قیمت اَدا کرنا پڑ رہی ہے جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مذکورہ خاردار دیوار کی تعمیر پر ابتدائی تخمینہ جات کے مطابق 53 کروڑ بیس لاکھ (532 ملین) ڈالر لاگت آئی۔ پاکستان کو درپیش سرحدی و داخلی مشکلات میں کمی اِس صورت میں بھی ممکن ہے کہ اگر پاکستان اور ایران ایک دوسرے سے تعاون اور ایک دوسرے سے عدم تعاون جیسے محرکات کا جائزہ لیں کیونکہ اِن دونوں ممالک میں امن کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی جب تک عملاً دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتے۔