مجھے یادہے سب ذرا ذرا

ٹریفک کا مسئلہ اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔یوں تو اس شہر کو مسائل کا شہر کہیں تو بالکل ٹھیک ہے۔اگر نہ کہیں تو پھر بھی ٹھیک ہے۔  پھرکیا غلط ہے۔کیونکہ جو غلط ہے وہ یہاں ٹھیک ہے۔اگر سب ٹھیک ہے تو پھر غلط کیا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہے۔جب اسی شہر میں گھر سے نکل کر پندرہ منٹ کے فاصلے پر ہشت نگری پہنچنا تھا۔ مگر ہم پہنچے توصرف دو گھنٹوں میں۔ مگر میں سمجھتا ہوں یہ دو گھنٹے کا سفر بہت مختصر رہا۔ ہم نے اس کم ترین فاصلے کے طویل ترین سفر میں وہ دنیائیں دیکھیں وہ وہ گلیاں کوچے دیکھے جو ہم نے یہاں رہ کر نصف صدی میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔ پورے شہر میں گھومے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کہاں سے کہاں نکل گئے۔ کیونکہ واپسی کا تو راستہ تھا نہیں۔ واپس جانا یا آگے قدم بڑھانا ایک برابر تھا۔کیونکہ پیچھے بھی گھتم گتھا ٹریفک کارش اور سامنے بھی یہی بد حالی۔ یہ کم فاصلے کا طویل سفر میں سمجھتا ہوں بہت مختصر تھا۔ وہ اس لئے کہ ہم بائیک پر سوار تھے۔ پھر جیسے اونٹ کو ریت کا جہاز کہتے ہیں۔ کیونکہ صحرا میں اونٹ سے زیادہ اور کوئی سواری تیزی سے سفر نہیں کرسکتی۔اسی طرح موٹر بائیک کو اس شہر میں ہم از خود رش کا اونٹ کہتے ہیں۔جیسے سانپ اگر چل پڑے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔اس کو جہاں کہیں راستہ ملے وہاں پہنچتا ہے۔ہم نے بھی اس رش میں مڑ کر دیکھنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم آگے ہی بڑھتے گئے۔ کیونکہ پیچھے دیکھنے سے اس وقت بندہ حیرانی کے مارے پتھر کا بن سکتا تھا۔یہ تو ہمیں اگر فائدہ ہوا تو اس لئے کہ ہم اس شہر کے گلی کوچوں‘موڑوں اور چورستوں کے راز دار تھے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کون سی گلی کس سمت میں کس بازار میں جا نکلتی ہے۔جو واقفیت اوروں کو حاصل نہ تھی وہ ہمیں اپنے بچپن ہی سے حاصل تھی کیونکہ انھیں گلی کوچوں میں خجل خوار ہو کر بڑے ہوئے ہیں۔گویا ہم بھی پشاور کے روڑے ہیں۔ اِدھر ٹھوکر لگی تو وہاں پہنچ گئے وہاں سے لات لگی تو یہاں واپس آ رہے۔ پھر اس شہر گل عارض کی بھیڑ بھاڑ میں موٹر سائیکل کا ساتھ ہو تو بندہ شہنشاہ ہے۔جہاں کہاں کوئی رکاوٹ آئی راہ چلتے ہوئے شہری کو آواز دی اور اس کی مدد سے بائیک کو سالم اٹھا کر سڑک کے دوسری طرف اتار دیا۔پھر مزے سے چل پڑے۔ٹریفک کا اتنا اژدہام تھا کہ یہ رش مین سڑکوں سے ہو کر گاؤں کی پتلی سی سڑکوں پر بھی آن موجود تھا۔ بلکہ گاؤں کے گھروں کے صحن تک میں اس ٹریفک کے رش کی دھول کھڑکیوں اور دیواروں پر جمنے لگی۔پھر اس وقت شام کا وقت بھی ہوگیا تھا۔دکانیں بند کرنے والے شہر سے باہر جا رہے تھے۔ گاڑیوں میں سوار ہوکر اور پھر شہر کو شام سے آنے والے بھی تو موجودتھے۔ جو دوسرے قریب کے شہروں میں اپنا کاروبار کا شٹر ڈاؤن کر کے گھر کو لوٹ رہے تھے۔ہجوم بہت دیکھا مگر جو نہ دیکھا اور اس کا ارمان رہ گیا وہ صبر تھا۔جو اس موقع پر کم یاب تو کیا نایاب او رناپید تھا۔ہر کوئی اپنا گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا کر رہاتھا۔اپنی گاڑی کو بس چلتا تو سڑک کنارے کی پتلے بلاکوں والی دیوار پر دوڑا دیتے۔جو طبقہ اس گھڑی سب سے مجبور و مقہور نظر آیا وہ بڑی گاڑیوں والے حضرات تھے۔جو کہیں آنے جانے کے قابل نہ تھے۔ مگر ان کے ساتھ کے بائیک والے تیر کی سی تیزی کے ساتھ بعض مواقع پر آگے کو نکل جاتے۔مگر اس دوران میں رش کا اپنے اصلی معنوں میں ہونا کہیں نظر نہ آیا۔ یہ تو اپنوں کا بنایا ہوا رش تھا۔جس کوختم کرنا انھیں کے ہاتھ میں تھا۔مگرجب یہ نہیں چاہتے تو پھر اور کون چاہے گا۔اس شہر کی بہتری تو اس شہر کے شہریوں کے ہاتھ میں ہے۔ہم تو زگ زیگ کرتے اور شارٹ کٹ کے راستوں کو اپنا کر منزل تک جیسے بھی سہی مگر پھر بھی جلدی پہنچ گئے۔لیکن وہ لوگ جو گاڑیو ں میں تھے وہ تو وہیں سڑکوں پر رُلتے رہے اور گھروں کو رات دیر گئے پہنچ پائے۔ہر پیر کی شام بلکہ ہر شام کہہ لیں جی ٹی روڈ پر یہی دمادم ڈھول بجتے ہیں اور دھمکار کا عالم ہوتا ہے۔اب ٹریفک کے اہلکار ہر ایک فرلانگ کے بعد ایک تو نہیں کھڑا ہو سکتا کہ ٹریفک کو اپنی نظر میں رکھے۔جب تلک کہ ہم میں خود بیداری پیدا نہ ہو اس مسئلے پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔حکومت کے ساتھ خود عوام بھی اس مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہوں گے تو مسئلہ ختم ہوگا ورنہ تو مسئلے کے ساتھ ایک اور مسئلہ نتھی ہوتا ہے۔اب شارٹ کٹ راستوں کا علم تو ہر کس و ناکس کو تو نہیں۔ غریب بیچارے رش میں پھنس جاتے ہیں اور دیرسے اپنے آشیانوں کو لوٹ پاتے ہیں۔ان  کا قصور کیا ہے۔فقط اتنا کہ وہ اس گل پوش شہر کے باسی ہیں۔جہاں آبادی کا گراف روز بروز اوپر جا رہا ہے۔