کہتے ہیں غم نہیں ہے تو بکری پال لو۔ مگر ہمیں تو غم ہے اور ہم اسی غم کی وجہ سے گھر میں بلی پالنا چاہتے ہیں۔ جن گھروں میں بلیاں ہیں سنا ہے کہ وہ غم سے آزاد ہیں۔ کیونکہ مجھے بھی گل بہار کے ایک رشتہ دار نے جب ان کے ہاں بیٹھے تھے تو یہی مشورہ دیا کہ بلی پالیں۔آپ کو اس غم سے نجات مل جائے گی۔ کیونکہ میں نے ان کے گھر کے چمن میں ایک عدد چوہے کو دوڑتے ہوئے دیکھا۔ پھر بلی جو وہاں بیٹھی تھی اس نے فوراً سے پہلے ایکشن لیا اور بھاگتے ہوئے چوہے کو گرفتار کر کے کھایا بھی نہیں اور گھیر لیا۔ میں بہت حیران ہوا کہ چوہوں کو تو زندہ پکڑنا ہمارے بس ہی میں نہیں۔ کیونکہ چوہے یاتو بجلی کی سی تیزی کے ساتھ نظر آئے یا اچانک سے غائب ہو گئے۔مگر بلی کا کمال ہے کہ اس نے چوہے کو ٹھہرا لیا کھایا نہیں۔ بلکہ ا س کے ساتھ کھیلنے لگی۔ پھر تھوڑی دیر بعد چوہے کی لاش کیاریوں میں پڑی ملی۔ انھوں نے پہلے تو گھر کی ہر نالی میں کولڈ ڈرنک کی بڑی بوتلوں کو کاٹ کر سر والا حصہ نالی میں رکھ دیا تاکہ پانی تو جا سکے مگر چوہا اوپر نہ آسکے۔مگر ان کی یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ مگر جب سے انھوں نے بلی پالی تو انھیں سکھ حاصل ہو گیا۔اب وہ آرام سے ہیں۔ چوہا ایک ہو یا بہت ہوں بلی جانے اور چوہے۔ان کوپکڑنا گھیرنا اور کھانانہ کھانا مگر مار ڈالنا۔ یہ کام اب بلی کے سپرد ہے۔ وہ اس کام کو انتہائی بہتر کارکردگی کے ساتھ انجام دیتی ہے۔ان صاحب نے ہماری دکھ بھری کہانی سنی تھی۔ یعنی ہم کس کس طرح چوہوں کے ہاتھوں اپنے گھر میں پریشان ہیں یوں کہ ناک میں دم ہو چکا ہے۔ہماری سرگذشت یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک کافی تعداد میں چوہوں کو قرقی میں پکڑا ہے۔مگر ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ہاتھوں خوفزدہ ہیں۔ایک چوہے کے مرنے کے بعد ہفتہ دن آرام رہتا ہے۔ مگر پھر سے ان کی موجودگی کے آثار کمرے میں چیزوں کے بے ترتیب پڑے ہونے سے مل جاتے ہیں۔ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کمرے میں چوہا پایا جاتا ہے۔ہماری تو بیٹھک پر دو ایک چوہوں کامکمل قبضہ ہے۔نظر بھی نہیں آتے اور نہ ہی قرقی میں آتے ہیں۔بہت کوشش کی۔کبھی قرقی ایک جگہ رکھی کبھی ہاتھ بچا کر دوسری جگہ رکھ دی۔ خو د ہمارا ہاتھ ایک آدھ مرتبہ قرقی میں آگیا۔ جس سے ہمارے انتقام کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ہم نے اپنے کمپیوٹر روم میں ایک چھوڑ دو دو قرقیاں رکھ لیں۔ مگر چوہے خوب ہوشیار ہو چکے ہیں۔جانے ان میں یہ چالاکی کیسے آئی کہ اول تو یہ قرقی کی طرف آتے نہیں ہیں۔پھر اگر ان کا موڈ ہو تو یہ حیوان قرقی میں پھنسائے گئے ٹماٹر کے قتلے کو بڑی مہارت او رباریک بینی سے کتر کتر کر کھا جاتے ہیں۔صبح اٹھو تو قرقی ٹماٹر سے خالی ہوتی ہے۔مگر اس میں چوہا نہیں ہوتا۔ جس طرح چوہا بلی کاکھیل ہے۔بالکل اس طرح گھرو الوں کے ساتھ چوہا کھیل کھیلتا ہے۔ ان کی مکمل نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ان کے آنے جانے کے راستوں کو سمجھنا پڑتا ہے۔پھر کہیں ان کے قدموں کا سراغ ملے تو کھوجی نگاہیں وہا ں قرقی رکھ دیں تو ممکن چوہا اس قرقی میں اپنی جان دے۔ہم اس طرح کافی چوہوں کو اپنے انجام تک پہنچاچکے ہیں ۔مگر ایک تو نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔گلی محلوں میں چوہوں کے لشکر پائے جاتے ہیں۔سڑک پر یا کہیں گلی میں اگر کوڑے کے بڑے ڈمپر کو رات کسی وقت لات سے بجائیں تو اس میں اچانک چوہوں کا جلوس نکل کر بھاگے گا۔ بعض گلی محلے میں رات کو اتنے چوہے گھوم رہے ہوتے ہیں کہ وہ گلی بھی تو چوہوں والی گلی کے نام سے مشہور ہو جاتی ہے۔ حکومت نے چوہا مار مہم کیلئے ہر چوہے کے سر پر انعام بھی رکھا تھا۔مگر شاید فنڈ ختم ہو گیا تھا یا کوئی اور وجہ ہوئی کہ سرکاری طور پر اس کا اہتمام تر ک کر دیاگیا۔اب پھر سے چوہوں کی بہتات ہو چکی ہے۔ان سے بھی طاعون جیسی متعدی بیماری پھیلتی ہے۔جس سے ماضی میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ مر چکے ہیں۔