کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا 

مغربی ممالک کے دو اہم ترین تہوار ہالو وین اور تھینکس گیونگ کے ہوتے ہیں۔کرسمس کی طرح یہ دونوں تہوار بھی کافی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں اوران دنوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔Halloweenکا تہوار تو روحوں‘چڑیلوں، بھوتوں، چمگاڈروں، مکڑیوں اور اسی طرح ہر اس خوفناک بات سے منسلک ہے جو ان کے خیال میں مرنے کے بعد قبر سے متعلق ہیں۔ آئر لینڈ کے  قدیم قبائل کا یہ عقیدہ تھا کہ سال میں ایک دن ایسا ہوتا ہے جب روحیں اور چڑیلیں واپس زمین کا رخ اختیار کرتی ہیں‘صدیوں پہلے جب مغرب پر ابھی اندھیروں کے سائے تھے اور مسلمان ممالک اپنی علم کی روشنیوں سے دنیا کو منور کئے ہوئے تھے یہ لوگ اس دن جانوروں کی کھالیں اور سروں پر جانوروں کی کھوپڑیاں پہن لیتے تھے تا کہ روحوں اور چڑیلوں سے چھپ کر بات کر سکیں۔ ہالو وین سردی کے شروع ہوتے ہی منایا جاتا ہے۔یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اب راتیں لمبی ہو جائینگی اور دن چھوٹے ہو جائینگے دنیا میں اندھیرے کا تناسب بڑھ جائے گاور اندھیرا قبرستان اور اس سے متعلق مخلوق سے وابستہ ہے۔صدیوں پہلے وہ ان روحوں بھوتوں اور چڑیلوں کو خوش کرنے کیلئے گھر گھر جا کر مختلف قسم کے کھانے جمع کرتے تھے تا کہ ان کی تواضع کی جا سکے۔ ہر موسم صدیوں سے آتی ہوئی جدید زمانے میں بھی آگئی اور ایک  فن پارٹی کے طورپر متعارف ہوئی امریکہ نے اس کو گلے سے لگایا اور پھر سارا مغرب ہی اس کی زد میں آگیا آج کل مغرب میں ہالو وین کا زمانہ چل رہا ہے۔31اکتوبر کو عام تعطیل ہوتی ہے کینیڈا کی جس دکان پر بھی چلے جائیں انواع و اقسام کے ایسے لباس آپ کو نظر آتے ہیں جن میں کھوپڑیاں، چڑیلیں، بھوت، جن، روحیں، تلواریں، چھریاں، مکڑیاں، چمگاڈریں اور ڈراؤنے ماسک بکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔پرانی رسم کے مطابق اب بھی گھر گھر جا کر تحائف اکٹھے کئے جاتے ہیں۔فرق یہ ہوگیا ہے کہ اب روحوں کی خوراک کی بجائے ٹافیاں اور چاکلیٹ ان بچوں کو دیئے جاتے ہیں جو اس رات گھر گھر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں یہ سال میں پہلا اور آخری موقع ہوتا ہے جب کوئی آپ کے دروازے پر ٹریٹ لینے آتا ہے ورنہ تو باقی 364دن گلیاں ویران اور سنسان ہوتی ہیں کسی بشر کی شکل نظر نہیں آتی اس مقصد کیلئے گھر والوں نے ڈھیروں ڈھیر ٹافیاں، چاکلیٹس پہلے سے جمع کی ہوتی ہیں اور مارکیٹ کی دکانیں منوں کے حساب سے یہ ٹافیاں اور چاکلیٹس اس مہینے میں بیچتی ہیں۔ pumkins تہوار کی خاص ترین نشانی ہے  جسے ہم کدو یا پیٹھا بولتے ہیں اور اکثر اس کا حلوہ بنا کر خوش ہوتے ہیں اسی پمپکن کو وہ پورا خالی کرتے ہیں سکھاتے ہیں اور اس میں شمعیں جلاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق صرف 81ملین پاؤنڈز کے پمپکن ہر سال مغرب میں سپلائی کئے جاتے ہیں اور بعد ازاں وہ گھر گھر کی ضرورت بنتے ہیں۔اس طرح 78بلین ڈالرز کی Candiesاور چاکلیٹ اور کاسٹیومز فروخت ہوتے ہیں۔اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ تاجروں کیلئے یہ تہوار کتنے معنی خیز ہیں اور منافع کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ہالو دین کی رات گھر گھر پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں جن میں شامل ہونیوالے افراد یہ ڈراؤنے کاسٹیوم پہن کر شامل ہوتے ہیں گھروں کے باہر قبرستان کے کتبے، پمپکن جن پر شکلیں بنائی گئی ہوتی ہیں پتھر، چمگاڈریں اور مکڑیوں کی سجاوٹ کی جاتی ہیں۔سکولوں میں ہالو دین کے نغمے گائے جاتے ہیں اور پمپکن کی Poemsدہرائی جاتی ہیں۔ہالو دین پارٹیاں پوری رات کا ہلا گل کا بہت بڑا مرکز ہوتی ہیں جن میں انسان خود بھوت، جن اور روحوں کا کھیل کھیتا ہے اور اب یہ تہوار ہلا گلا اور شغل بن کر رہ گیا ہے۔والدین بچوں کویہ ڈریسز خرید کر بہر صورت دیتے ہیں کیوں کہ اس کے بغیر وہ جان نہیں چھوڑتے ”کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا“ انہی ممالک کیلئے ایجاد ہوا ہے جہاں کروڑوں لوگ غربت کی نیچے کی لکیر میں رہتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ غریب اور جنگ زدہ علاقوں کی حالت زار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔بھوک، قتل، غارت، افلاس، معذوریاں دنیا کے لاکھوں لوگوں کا مقدر بن چکی ہیں وہاں مغرب کروڑوں پاؤنڈز اور ڈالرز ایک رات کی خوشی کیلئے خرچ کرتا ہے روحوں چڑیلوں اور بھوتوں کو سب یاد کرتے ہیں مکڑیاں اور ان کے جالوں کی بھی بات کی جاتی ہے، چمگاڈریں قبرستان میں بسیرا کرتی ہیں اس کو بھی یاد رکھا جاتا ہے۔بس اگر کوئی یہاں نہیں جانتا تو صرف یہ کہ ہمیں بھی ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہے۔