پاکستان کے سیاسی‘ معاشی‘ اندرونی اور بیرونی معاملات میں پیچیدگیوں کا اثر روزمرہ معمولات ِزندگی کے علاوہ کھیلوں پر بھی ہوتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے منتظم ادارے (پی سی بی) کے نئے چیئرمین کے طور پر رمیز راجہ کی تقرری ہوتے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم کا پاکستان سے یہ کہتے ہوئے چلے جانا کہ انہیں مختلف ذرائع سے دھمکیاں مل رہی ہیں کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ مزید یہ کہ برطانیہ کے کرکٹ بورڈ نے بھی اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کیا اور بعدازاں وضاحت میں معافی مانگی لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی کے خلاف جس کسی نے بھی سازش کی تھی اسے ناکام بنانے کیلئے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔کیونکہ سازشیں ہمیشہ سوچی سمجھی ہی ہوتی ہیں اور اُن سے بچنے کیلئے بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اِس صورتحال میں اہم انتظامی ذمہ داریوں پر فائز شخصیات کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اور باریکیوں کو مدِنظر رکھ کر اٹھانا ہوگا۔ انہیں چاہئے کہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط (بنا سوچے سمجھے) بیانات داغنے سے گریز کریں اور اپنے خیالات کے اظہار میں حقیقت و فسانے کو علیحدہ علیحدہ رکھیں۔ بلاشک و شبہ رمیز راجہ باشعور اور تعلیم یافتہ انسان ہونے کے ساتھ کرکٹ کے اور اِس کھیل سے جڑی عالمی سیاست کے پیچ و خم سے بخوبی واقف ہیں۔ ظاہراً وہ اس کھیل سے والہانہ محبت رکھنے والوں کے دلوں میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ جب سے انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو لوگوں نے ان سے ملک میں کرکٹ کو فروغ دینے کی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی برائے کھیل کے سامنے جو بیان دیا اس سے نہ صرف شائقین کرکٹ کی دل آزاری ہوئی بلکہ خود رمیز راجہ کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دراصل بھارت کے پاس کسی کی فنڈنگ روکنے کا کوئی اختیار نہیں اور تمام ممالک کو فنڈنگ آئی سی سی کرتی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے کل بارہ ممالک جن میں برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی افریقہ اور بھارت شامل ہے‘ اِنہیں بھی آئی سی سی ہی پیسے فراہم کرتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے تو پھر آئی سی سی کو مالی وسائل (فنڈنگ) کہاں سے ملتی ہے؟ اِس کا جواب اشتہارات ہیں جو آئی سی سی کی فنڈنگ کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ زیادہ تر ٹیلی ویژن چینلوں پر کرکٹ کے حقوق فروخت کر کے اور تعاون (سپانسرشپ) کے ذریعے ’آئی سی سی‘ کو مدد ملتی ہے جو سالانہ کئی ارب ڈالر ہوتی ہے۔ یہ رقم کس قدر ہوتی ہے اِس کا اندازہ سال دوہزارسات سے دوہزارپندرہ کے درمیانی عرصے میں ہونے والی آمدنی سے لگایا جا سکتا ہے جو قریب ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر تھی۔ ٹیلی ویژن چینلز اپنے اپنے ممالک میں شائقین کو کرکٹ ٹورنامنٹ دکھانے کیلئے نشریاتی حقوق خریدتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ بھارت آبادی کے اعتبار سے بھی اور معاشی اعتبار سے بھی بڑا ملک ہے اسی وجہ سے آئی سی سی کو اشتہارات اور سپانسر شپ کی مد میں سب سے زیادہ پیسے بھارت سے ہی ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک کی نسبت آئی سی سی بھارت کو زیادہ مالی فنڈنگ بھی فراہم کرتا ہے۔ یوں رمیز راجہ کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے پاکستان کو کچھ بڑے ممالک کی نسبت کم فنڈنگ ہوتی ہے لہٰذا ہمیں یہ تسلیم تو کرنا ہوگا کہ پاکستان کرکٹ کو فعال رکھنے کیلئے مالی اعتبار سے مضبوط ہونا ناگزیر ہے تاہم یہ تاثر دینا کسی بھی طور پر درست نہیں کہ اگر بھارت پاکستان کو پیسے نہ دے تو یہاں کرکٹ ختم ہوجائے گی۔ رمیز راجہ کے مذکورہ بیان نے بھارتی میڈیا کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اس بات کو اچھالتے رہیں کہ پاکستان کی کرکٹ کا انحصار بھارت کے فراہم کردہ مالی وسائل پر ہے۔ بہرحال اب رمیز راجہ کی کوشش یہی ہے کہ وہ مختلف کاروباری افراد اور اداروں کے ساتھ مل کر ’پی سی بی‘ کے مالی حالات کو مستحکم کریں۔