پاکستان کے ساتھ امریکہ کا دوغلا پن

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات زیادہ تر پاکستان کی طرف سے یک طرفہ محبت، خدمات اور قربانیوں کی کہانی رہے ہیں۔ ہمیشہ جب ضرورت پڑی تو امریکہ پاکستان سے قریب ہوا، مقصد حاصل ہوا تو اسے چھوڑدیا بلکہ پھر اس پر پابندیاں لگائیں۔ اب بھی افغانستان سے امریکی فوج نکل گئی اور اسے پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تو ایک دفعہ پھر اس نے ماضی کی طرح پاکستان کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے۔ مگر ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا۔اخلاقی اصولوں کی بات نہیں کرتے کیونکہ خارجہ تعلقات ضررت کے رشتے ہوتے ہیں مگر امریکی مفادات اور خطے میں امن و خوشحالی کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کا ربط اور تعاون مسلسل اور مستقل طور پر جاری رہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی رہا اور اس میں کسی دوسرے اتحادی سے زیادہ قربانیاں دیں مگر امریکہ پھر بھی ہر وقت اس سے ڈو مور کے مطالبے کرتا رہا۔سابق سوویت یونین کی 1951 میں دورے کی دعوت نظر انداز پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کئے۔ اس سے سویت یونین ناراض ہوگیااور ا س نے اپنا پورا وزن بعد میں بھارت کے حق میں ڈالا، اسے سر تا پا مسلح کیا اور ہر فورم پراس کی بھرپور حمایت شروع کردی۔پاکستان نے امریکہ اور آزاد دنیا کے ساتھ سیٹو اور سینٹو میں یہ سوچ کر شمولیت اختیار کی تھی کہ ضرورت پڑنے پر یہ اس کی مدد کریں گے لیکن ہوا یوں کہ جب 1965 میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا تو امریکہ نے پاکستان کی عسکری یا مالی مدد کرنے کے بجائے پاکستان کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی پر پابندیاں عائد کر دیں۔۔پاکستان نے 70 کی دہائی میں امریکہ اور چین کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کروائے۔ ان مذاکرات کے دوران چینی رہنما نے امریکی ایلچی سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو نظر انداز نہ کرے لیکن امریکہ نے بھارت کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی کو اکیلا چھوڑ دیا۔اپریل 1979 میں امریکہ، جو اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کرتا رہا تھا، نے پاکستان پر ایٹم بم بنانے کی کوشش کرنے کی وجہ سے پابندیاں عائد کردیں۔ تاہم چند ماہ بعد، جب اسے افغانستان میں سرخ افواج کے خلاف پاکستان کی مدد درکار ہوگئی، تو پھرڈاکٹر برزنیسکی کو ایک پیکج کے ساتھ پاکستان بھیج دیا۔ پاکستان اس کا اتحادی بن گیا۔ لیکن جب پاکستان کی مدد سے سویت یونین کو شکست ہوئی اور امریکہ کے مقاصد پورے ہوگئے تو اس نے پاکستان کو افغان جنگ سے پیدا شدہ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے پھر اکیلا چھوڑ دیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ان کی نظر میں پھر خطرہ بن گیا اور 1990 میں امریکہ نے پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں جس کے تحت پاکستان کو ہر قسم کی فوجی امداد بند کر دی گئی۔ ان برسوں کے دوران امریکہ نے پاکستان کو اس کے مقامی جوہری اور میزائل ترقیاتی پروگرام سے محروم کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی۔پاکستان کے ساتھ یہ امریکی بے حسی اور دوہرا معیار جاری رہا حتی کہ نائن الیون کے سانحے کی وجہ سے امریکہ کو پھر پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑگئی۔ پاکستان کے خلاف تمام پابندیاں ختم کر دی گئیں اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا غیر نیٹو اتحادی بن گیا۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن پاکستان سے ایسا معاہدہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکہ اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی طرف سے فوجی سہولیات اور جوہری ایندھن کے ذخیرے کی جانچ پڑتال سے استثنی دیا گیا ہے جس سے ہندوستان جاپان، روس، فرانس، برطانوی، جنوبی کوریا، کینیڈا، ارجنٹائن، قازقستان منگولیا اور نمیبیا کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ہندوستانی اور پاکستانی رکنیت کے بارے میں امریکہ کی پالیسی بھی دہرے معیار کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور بھارت نے 2016 میں این ایس جی کی رکنیت کیلئے درخواست دی تھی۔ اگرچہ عدم پھیلا معاہدہ پر دستخط گروپ میں داخلے کیلئے ایک شرط ہے اور ہندوستان نے اس پر دستخط نہیں کئے ہیں، لیکن امریکہ بھارت کیلئے این پی ٹی پر دستخطی استثنیٰ ختم کرنے کا حامی ہے مگر اس نے سات پاکستانی کمپنیوں کوان غیر ملکی اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے جو سخت برآمدی نگرانی میں ہیں۔ اس اقدام سے این ایس جی میں شمولیت کیلئے پاکستان کی کوشش میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔امریکہ کی خودغرضی کی انتہا ایف سولہ طیاروں کے سودے میں نظر آئی۔ اگرچہ پاکستان نے F16s ہوائی جہازوں کیلئے ادائیگی کی تھی لیکن پھر پابندیوں کی وجہ سے امریکہ نے نہ F16s اس کے حوالے کیے اور نہ ہی ان کی ادا کی گئی رقم واپس کی بلکہ اس نے ان طیاروں کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی پاکستان سے لیے۔نائن الیون کے بعد امریکی اتحاد میں شمولیت کے بعد عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان کے ہزاروں اہلکار اور عام لوگ شہید ہوگئے اور اس کی معیشت کو ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا مگر امریکہ پھر بھی پاکستان کے عزم پر سوال کرتا رہا اور اس سے مطمئن نہیں ہوا۔ بلکہ اس نے پاکستان میں ڈرون اور سلالہ جیسے حملے جاری رکھے۔امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات اور معاہدہ بھی پاکستان کی مدد سے ممکن ہوا اور ستمبر میں امریکی و اتحادی افواج، ان کے شہریوں اور افغان اتحادیوں کا محفوظ انخلا بھی پاکستان کے بغیر ناممکن ہوتا مگر اب پھر امریکہ پاکستان سے دور ہوتا جارہا ہے کیوں کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔پاکستان ایک اتحادی کی حیثیت سے منصفانہ سلوک اور احترام کا حقدار ہے۔ اس کی نیت پر شک کرنے اور پاکستان سے ڈو مور کی پالیسی سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ پاکستان کو مزید چین اور روس کی طرف دھکیل دے گا۔امریکہ اپنی ہار اور طالبان کی جیت پر برافروختہ ہے اور اپنی غلطیاں ماننے اور طرزعمل سنوارنے کے بجائے اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ مگر وہ یاد رکھے ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ گیند اس کے صحن میں ہے وہ چاہے تو پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھے اور نہ صرف اپنا بلکہ پورے خطے کا بھلا کرے یا پاکستان پر بدگمانی کرنے، الزامات لگانے اور اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے اور اپنا نقصان کرے۔