کا بل کا منظر نا مہ 

بین الاقوامی تعلقات کے علم میں دارلحکومت کا نا م لیکر ملک مراد لیا جا تا ہے یہ اصطلا ح اردو ادب میں مجاز مر سل کہلا تی ہے چنا نچہ کا بل سے مراد افغانستا ن ہے اگر چہ اس کا نام ”نیا افغانستان“ نہیں رکھا گیا تا ہم افغا نستان میں تبدیلی آگئی ہے امارت اسلا می نے اقتدار سنبھال لیا ہے ملک میں ظاہر شاہ کے وقت کا دستور نا فذ کیا گیا ہے لیکن دو مہینے گزر نے کے با جود کسی ملک نے افغانستا ن کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اسلا می کا نفرنس کی تنظیم کے 57ممبر ممالک امارت اسلا می افغا نستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے معلوم نہیں کس کے حکم کے منتظر ہیں؟ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک بڑی یو نیور سٹی کے آڈیٹو ریم میں ایک دانشور کا لیکچر تھا دانشور بین الاقوامی تعلقات کے اخلا قی اقدار پر گفتگو کر رہے تھے ان کی گفتگو کا خلا صہ یہ تھا کہ بین لا قوامی تعلقات میں قوموں کے ساتھ بر تاؤ کے کڑے اصول ہیں کوئی قوم ان سے انخراف نہیں کر سکتی۔اس وقت ہماری دنیا گروہوں میں بٹ چکی ہے۔مشرقی تیمور میں علیحدگی پسند جنگجوؤں کو ہیرو تسلیم کیا گیا کار لوس بیلو اور سنا نہ گُسماؤ کو امن کا نو بل انعام دیا گیا۔ فلسطین اور کشمیر میں مسلما ن آزادی کا مطالبہ کرے تو اس کو دہشت گر د قرار دیا جا تا ہے دانشور نے ان کہی بات بڑے سلیقے سے کہہ دی۔ کا بل سے آنے والی خبروں کے مطا بق اما رت اسلا می کو چار بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ بینکو ں کا نظام معطل ہے‘ جو تجا رت پراثر انداز ہورہا ہے‘ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے،ترقیا تی کام بند ہیں‘مزدوری نہیں ہے‘ غر بت اور بے روز گاری میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں بے چینی پھیل رہی ہے انسا نی المیہ جنم لینے والا ہے امریکہ، یو رپی یونین اور اقوام متحدہ نے امدادی سر گر میوں پر پا بند ی لگا ئی ہے عالمی طاقتوں کے چند شرائط ہیں جن کو ما ننے کیلئے اما رت اسلا می کی قیا دت آما دہ نہیں گزشتہ دو ہفتوں میں مسجدوں پر خو د کش حملے ہوئے ہیں‘ نماز جمعہ کے دوران ہو نے والے حملوں میں ڈیڑھ سو نما زی شہید اور دو سو سے زیا دہ زخمی یا معذور ہوئے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو معاشرتی بے چینی میں اضافہ ہو اور ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ بھی بھڑک اُٹھے ان مسا ئل سے نمٹنے کے لئے 57اسلا می ملکوں کے تعاون کی ضرورت ہے اسلا می ملکوں نے تسلیم کیا تو پوری دنیا امارت اسلا می افغا نستان کو تسلیم کریگی کا بل کا منظر نا مہ گومگو کی کیفیت سے دو چار ہے  اور یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ افغانستان کے امن سے خطے کا امن وابستہ ہے اور خاص طور پرپاکستان اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔اس لئے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان خطے کے ممالک کو ساتھ ملا کر ایسا ماحول بنائے کہ دنیا کے باقی ممالک بھی افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کریں اور اس کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرلیں، اسی طرح افغانستان انسانی المیے سے بچ سکتا ہے اور یہاں پر اگر زندگی معمول پر آگئی تو پھر وہ وقت دور نہیں جب قدرتی وسائل سے مالا مال یہ ملک نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی یہاں پر امن قائم ہونے سے مستفید ہوں۔