معاملہ بس سے باہر ہے 

جی ہاں ایک نہیں بہت سے معاملات ہیں جن پر کنٹرول کرنا ہمارے تو بس میں نہیں رہا۔ہم اب تو جلد ہی وہ دن بھی دیکھنے والے ہیں جب سو روپے کے سو قطرے ملیں گے۔ جیسے ڈاکٹر کی دوا کی طرح آنکھوں میں یا کانوں میں ڈالنے کے قطرے ہوں۔ اس طرح آنے والے دنوں میں پٹرول کی فروخت گراں ترین نرخوں پر مہیا ہوگی۔شہریوں کا پسینہ بہتا تھا۔اس وقت جلد نہ سہی بدیر ہوا کے زور پر خشک ہو جاتا تھا۔ مگر اب ”وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا“۔اب تو پٹرول جلد سے جلد سوکھ جاتا ہے۔خواہ اس کو اوپن ایئرمیں رکھیں یا ڈبوں بوتلو ں اور کار کی ٹینکی میں چھپ چھپا کر پوشیدہ کر لیں۔یہ اندر ہی اندر ذرا سی مشین سٹارٹ ہوئی ہوا ہو جائے گا۔اب تو ہمارا ہر حربہ ناکام ہو چلا ہے۔بہت مہنگائی ہوتی تھی۔ مگر ہم کوشش کر کے مہنگائی ہونے سے روک دیتے تھے۔میں پٹرول کے مہنگاہونے کی بات کر رہاہوں۔ یہ لوگ تیل کو جتنا بھی مہنگا کر تے ہم ان کی ہر چال کو ناکام بنا دیتے۔ خواہ جتنے کا بھی ایک لیٹر ہوتا۔ہم سو روپے کا ڈالتے۔مگر اب تو دو پایوں کی اور چار پہیوں کی گاڑی ایک برابر ہیں۔جتنا پٹرول کار والے سوچ سمجھ کر ڈالتے ہیں اتنا ہی بائیکر بھی سوچ کر حساب کر کے اپنی بائیک کی ٹینکی میں تیل ڈلوائیں گے۔گویا ہر ایک قطرے کا حساب ہوگا۔پہلے خون کے قطروں کا حساب گنا جاتا تھا۔اب پٹرول کے قطروں کا حساب دیکھا جاتا ہے۔ پھر حساب کیا جاتا ہے۔کیلکولیٹر پر نہ سہی مگر دل ہی دل میں جمع تفریق کو سوچتے سمجھتے پٹرول ڈالا جائے گا۔ کیونکہ پٹرول کی فی لیٹر قیمت کا معاملہ بس سے بھی باہرہے اور سمجھ سے بالا تر ہے۔اس کا تو آسان حل یہ ہے کہ چپکے سے چار پانچ آدمی مل جل کر ڈنگا ڈولی کرکے بائیک کو اوپر کمرے کی دہر میں ڈال دیں۔ دیکھیں گے جب پٹرول سستا ہوا توکسی طریقے سے اتار لیں گے۔جیسے عیدِ قرباں میں جانور وں کو بیچنے سے پہلے بچپن سے بڑے ہونے تک بلڈنگ کی ساتویں منزل کے کوٹھے پر پال کر کرین کے ذریعے نیچے اتارا جاتا ہے۔بس موٹر سائیکل نہ سہی صرف سائیکل ہی سہی۔ موٹر سائیکل او رسائیکل میں فرق ہی کیا ہے۔ بس ایک لفظ کا اضافہ ہی تو ہے۔ اس اضافہ کو قیمت کے اضافے کی طرح واپس تو ہر گز نہیں لیا جا سکتا۔ہاں ایک لفظ کو اپنے الفاظ کے واپس لینے کو لیا جا سکتا ہے۔ورنہ ہتک عزت کا دعوی کر نے میں کیا حرج ہے۔موٹر کو کھڑا رہنے دیں اور سائیکل کو چلانا شروع کر دیں۔ مہنگی تو ہوگی۔ مگرایک ہی دن کڑوا گھونٹ بھر کے خرید فرماویں اور پھر بغیر پٹرول کے چلانا شروع کر دیں۔ چین کے صدر بھی تو سائیکل پر اپنے صدارتی گھر سے نکلتے تھے۔ وہاں تو اب بھی بڑے سرکاری افسران اور سیاسی ٹائیکون سائیکل چلا کر دفتر آتے جاتے ہیں۔جب وہ یہ کر سکتے ہیں توپھر ہم بہت کچھ کرسکنے کے قابل ہیں۔بی آر ٹی کے ساتھ ساتھ سائیکل ٹریک بننے کی باتیں ہیں۔وہاں سائیکل چلا سکتے ہیں۔ یہ اب بائیک سواروں کی دکھ بھری کہانی ہی نہیں رہ گئی۔اب تو یہ کہانی گھر گھر کی ہے۔ہر گھرمیں پٹرو ل سے آگ لگی ہوئی ہے۔پھر جلتی پر اب تو تیل ڈالنے کا محاورہ بھی سر کھا گیا۔ اب تو جلتی پر چند قطرے پٹرول ڈالنے کی باتیں ہیں۔تاکہ ٹھیک ٹھیک جلے اور جلتی جائے۔جل کر خاکستر ہو جائے اور پھر اس راکھ سے کچھ اور بنے اور پھر اس کو بھی مزید چند قطرے ڈال کر سرمہ بنا دیا جائے۔ پھر یہ کاجل قابل فروخت ہو۔جب پٹرول مہنگا ہوگا تو اور کون سی چیز سستی ہوگی۔ کیونکہ دکانوں پر جو مال آتا ہے وہ جن گاڑیوں سے اتارا جاتا ہے وہ گاڑیاں بھی تو پٹرول سے چلتی ہیں۔ سو اس مال نے اور مہنگا ہونا ہے۔پھر ڈالر جب اڑان بھرے گا تو اس سے نجات حاصل کرنے والے اس کے پہیوں سے لٹک کر اگر نجات حاصل کرنے چلیں گے تو چل نہیں سکیں گے بلکہ اوپر سے زمین پر آ رہیں گے۔پھر اس کے علاوہ بھی تیسری طرح مہنگائی نے اور بھی زیادہ ہوناہے۔ کیونکہ قرضہ جات جس سے لئے ہیں او رلینے ہیں اس کی بات کا پالن بھی تو کرناہے۔ورنہ قرضہ نہیں ملے گا۔پھر جو ملا ہے وہ ڈالر کے مہنگا ہونے سے اپنی قسط واری میں اور بھی سوجھ کر کپا بن رہا ہے۔چلو جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے۔پٹرول کی گرانی گوارا کر لیں گے۔مگر اس بات کا ثبوت کون دے گا کہ اس کے بعد دوبارہ تیل کی گرانی نہیں ہوگی۔یہاں تو معاملہ اوپر ہی اوپرجا رہاہے۔یہ نہ ہو پٹرول بہت ہو اور پٹرول پمپ بھرے پُرے ہوں مگر پٹرول ڈالوانے والے اپنی گاڑیوں کے سمیت کہیں کسی کونے کھدرے میں چھپ کر کھڑے ہوں کہ ذرا دھکا لگاؤکیونکہ گاڑ ی کو پمپ تک پہنچانا ہے۔