پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر حزب اختلاف کی وہ جماعتیں بھی منظم اور ملگ گیر احتجاج کی دھمکیاں دے رہی ہیں جن کی وجہ سے ملک اِس نہج پر پہنچا کہ قرضوں پر منحصر معیشت کی بحالی میں مشکلات درپیش ہیں۔ مہنگائی کے چند تکنیکی پہلو بھی ہیں اور اِن میں سرفہرست تیل کی درآمد پر اُٹھنے والے اخراجات ہیں جو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ستانوے فیصد سے بڑھ کر 4.59ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں جو گزشتہ سال کے اِسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا یعنی پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران دو ارب ڈالر سے زائد کا تیل درآمد کیا تھا جو بڑھ کر چار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکا ہے! مہنگائی کا دوسرا تکنیکی محرک بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور تیسرا تکنیکی محرک ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی ہے۔ اِن تینوں محرکات کیلئے وفاقی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور نہ ہی اِن کا تعلق ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ سے جاری مذاکراتی عمل سے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ تیل کے قومی درآمدی بل میں مسلسل اضافہ تجارتی خسارے کو فعال کر رہا ہے اور بات حکومت کیلئے پریشانی سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں تجارتی خسارے میں اضافے کے نمایاں آثار ہیں۔ پاکستان شماریات بیورو کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں 93.21فیصد اور 10.86فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خام تیل کی درآمدات میں 81فیصد سے زیادہ اضافہ جبکہ مائع قدرتی گیس کی قیمت میں 144فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے جولائی تا ستمبر مہینوں میں مائع پیٹرولیم گیس کی درآمدات میں 53.95فیصد اضافہ ہوا۔ درآمدی بل کا دوسرا بڑا حصہ کھانے پینے کی اشیا پر مشتمل ہوتا ہے۔ خوراک کی درآمد کا بل رواں مالی سال کے پہلے تین مہینوں میں 38فیصد سے بڑھ کر 2.36 ارب ڈالر ہوا جو گزشتہ برس کے اسی مہینوں کے مقابلے میں 1.71ارب ڈالر تھا۔ خوراک کی درآمدات سے متعلق مسلسل بڑھتا ہوا بل اور اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ حکومت کیلئے پریشانی کا دوسرا بڑا محرک ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں خوردنی اشیا کی درآمد پر آٹھ ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے تھے۔ فوڈ امپورٹ بل آئندہ چند ماہ میں مزید بڑھ جائے گا کیونکہ حکومت نے اسٹریٹجک ذخائر بنانے کیلئے چھ لاکھ ٹن چینی اور چالیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔جولائی تا ستمبر (مالی سال دوہزاراکیس بائیس) میں مجموعی درآمدی بل چھیاسٹھ فیصد بڑھ کر اٹھارہ ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں گیارہ ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھا۔ تمام غذائی اشیا کے درآمدی بل نے رواں برس کے پہلے تین مہینوں میں قیمت اور مقدار میں اضافہ کیا‘ جو ملکی پیداوار میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ فوڈ گروپ کی درآمد میں سب سے بڑا حصہ گندم‘ چینی‘ خوردنی تیل‘ مصالحہ جات‘ خشک چائے کی پتی اور دالیں ہیں جبکہ خوردنی تیل و گھی کی درآمد میں مقدار‘ قیمت اور فی قیمت کی شرائط میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ پام آئل کی درآمد مالی سال جولائی تا ستمبر 53.91فیصد بڑھ کر 89کروڑ ڈالر ہوئی جو گزشتہ برس کے اسی مہینوں میں ستاون کروڑ ڈالر تھی۔ اِن تکنیکی محرکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا قوم ایسی اشیا کے استعمال سے گریز کرے گی جو درآمدی ہیں اور اِن کے متبادل موجود پاکستانی اشیا خریدیں گی تاکہ مقامی پیداوار اور صنعتوں کو سہارا مل سکے؟۔مہنگائی کاتوڑ صرف حکومتی کوششوں سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اِس کیلئے جملہ فریقین کو کوششیں کرنا ہوں گی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر درآمدی اشیاء کا استعمال کم سے کم ہو تو یقینا اس سے جہاں ایک طرف قیمتی زر مبادلے کو بچایا جاسکتا ہے تو دوسری طرف ڈالر اور روپے کی قدر وقیمت میں بڑھتے فرق کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اس وقت بحیثیت قوم ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حالات کی مناسبت سے رویہ اپنائیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے نوازلیگ‘ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے جن میں اگرچہ شرکا کی تعداد کم رہی اور چند مقامات پر مظاہرین نے بجلی کے بلوں اور ایک موٹر سائیکل کو نذر آتش کر کے مہنگائی پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا تو یہ ردعمل اپنی جگہ اہم ہے اور اگر ”مہنگائی کو لگام“ نہ دی گئی تو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کیلئے آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو جائیں گے جبکہ حکمراں جماعت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔