یہ لوگ چاند پر گئے تھے۔ا س بات کو ساٹھ سال ہونے لگے ہیں۔مگر انھیں وہاں کیاملا۔خاک ملا۔ بلکہ خاک ملی۔ پھر یہ لوگ وہاں کی مٹی رومال میں باندھ کر لائے کہ اس پر تحقیق کریں گے۔مگر لاکر عجائب گھر میں رکھ دی۔ اس مٹی پر خاک تحقیق بھی نہ ہوئی۔کیونکہ مٹی ہی تو تھی۔اس کے بعد چاند پر کوئی نہ گیا۔اب مریخ پر جانے کو پر تول رہے ہیں۔ وہاں کیا رکھا ہے۔مانا کہ ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ مگر زمین پراس دنیا میں ”عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“۔ تو کیا ان امتحانات میں ان ارب پتیوں کو کامیابی مل گئی ہے۔جو خلامیں جانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تو کیا زمین کے سب جھگڑے فیصلے کر دیئے گئے ہیں۔کیا زمینوں کے معاملات طے پا گئے ہیں۔کیا غربت کا اختتام ہو چکا ہے۔ سنا ہے کہ فہرستیں مرتب ہو رہی ہیں۔ مگران پر خوب کڑی تنقید ہو رہی ہے۔پہلے زمین کو ٹھیک کریں۔ کیونکہ یہ ایک ملک کامسئلہ نہیں۔ہمارے بچوں کیلئے دنیا کا ماحول سازگار نہیں۔ آنے والی نسلو ں کو ہم کیا دے کر جائیں گے۔ وہاں کالونیاں بنانے کا پروگرام ہے۔اب سے تیس برس بعد وہاں دس لاکھ لوگ اتریں گے۔بلکہ ٹیسلا کاریں وہیں بنائی جائیں گی۔ انھوں نے زمین کو تو برباد کردیا ہے اب مریخ پر اپنی آلودگی پھیلانے لگے ہیں۔جائیں بے شک ان کو کسی نے پہلے کب روکا تھا جو اب ان کو روکا جا سکتا ہے۔”میں نے روکابھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں“ ”تم چلے ہو تو کوئی روکنے وا لا بھی نہیں ”۔ ”جانے والے کو بھلا روک سکا ہے کوئی۔ تم جو روکو گے تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے“۔یہاں تو اچھے ذہنوں کی ضرورت ہے جو زمین کے اس گلوب میں دوسرے تیسر ے معاملات کی گھتی سلجھائیں۔ مگر یہ زمین کو چھوڑ کر اب مریخ پر رہائشی کالونیاں بسائیں گے۔ چاند ستاروں پر بستیاں سجانے والوں کو درکار ہے کہ جو چراغ برسرِ زمین بجھتے چلے جاتے ہیں ان کو از سرنو روشن کریں۔دنیا کے اندھیروں کو پہلے دور کریں پھر بعد میں کہیں اور جاکر خلانورد کی ڈائری لکھیں۔دلوں کی ویرانیاں کیا کم ہیں کہ اب جو یہ لوگ خلاؤں میں تلاش کا کام جاری کریں گے۔کیا زمین پر بھوک ختم ہو گئی ہے۔کیا ان بلکتے انسانوں کے پیٹ بھر گئے ہیں۔ جو اب یہ سیاروں پر ایک نئی تاریخ لکھنے کو جا رہے ہیں۔اربو ں ڈالر کے خرچے ہوں گے اور ایک دن میں ایک سو کی تعداد میں زمین زادوں کو خلا کی سیر کروائیں گے۔ ہمارے بچوں کیلئے زمین کی آب و ہوا ناموزوں ہے۔پہلے اس کی درستی کی سبیل نکالیں۔ کیونکہ ہمارے بچوں کو خطرہ ہے۔ پھر مریخ جانے کا سوچیں۔انھوں نے مریخ پر شہر بسانا ہے۔پیسہ کمانا ہے۔ اس دوڑ میں اب پتی لوگ شامل ہو چکے ہیں۔وہ لسٹیں تیار کر رہے ہیں۔جانے وہا ں کیسے اتریں گے کیونکہ وہاں تو سانس لینا ممکن نہیں۔اس لئے توایک صاحب جو ارب پتی ہیں اتنا اشتیاق سے خلا میں دور تک گئے اور پھر واپس بھی آگئے۔اب یہ دوسرے لوگوں کو خلا کی سیر کروائیں گے۔روپیہ بنائیں گے۔ یہ انسان کتنے لالچی ہیں۔جو زمین کے ماحول کو برباد کرنے کے بعد اب خلا کو بھی گندا کر نے چلے ہیں۔پہلے اپنے زمینی معاملات کودرست کریں پھر زمین جیسے سیاروں کی تلاش کریں۔مگر ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“۔ مگر ابھی ا س پر بہت وقت لگے گا۔ ”آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک“۔ابھی تو یہ غریب ملکوں کی مدد کرنے کو اربوں ڈالر دیتے ہیں۔پھر ان کو قرضہ جات الگ مہیاکرتے ہیں۔ مگر جب مریخ پر جانے کے پروگرامات تیار ہوں گے تو یہ ڈالر ستاروں پر جانے کے پروگرامات پر خرچ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ اب جو بھوک سے تنگ اور بلکتے انسان ہیں ان کی تعداد کمی تو کیا ہوگی الٹا اضا فہ ہوگا۔ پھر ان کے اپنے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے گا۔مریخ کے سیارے پر ابھی تک توانسان نے قدم نہیں رکھا۔ چونکہ مریخ سیارہ جوزمین کے قریب ترین ہمارا ہمسایہ ہے۔اتنا گرم ہے کہ ہم لوگوں کو بھی جب سوئے آسمان دیکھیں تو سرخ نظر آتا ہے۔ انسان نے ابھی بہت کچھ دریافت کرنا ہے۔ترقی کے باوجود انسان کا دماغ ابھی ایک فیصد بھی استعمال نہیں ہوا۔مگر زمین پہلے ہے اور مریخ بعد میں ہے۔پہلے زمین کو دیکھو پھر بعد میں جا کر مریخ کو دیکھو۔