پرفیکٹ آغاز

مختصر دورانیئے (کم اوورز) کی کرکٹ کے ساتویں عالمی مقابلے 17 اکتوبر سے 14نومبر جاری ہیں‘ جس میں ویسٹ انڈیز عالمی چیمپئن ہونے کا دفاع کر رہی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ٹیم گرین نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزاراکیس سے قبل اپنے پہلے وارم اپ مقابلے میں دفاعی چمپئن ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر شائقین کرکٹ سے داد اور دعائیں وصول کی ہیں۔ اگرچہ ’وارم اپ مقابلے‘ کسی بھی ٹیم کی تیاریوں کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے لیکن پھر بھی یہ ایک بڑے میدان پر قدم رکھنے سے پہلے ’لہو گرم رکھنے کا بہانہ‘ ضرور فراہم کرتے ہیں۔ویسٹ انڈیز اس مرتبہ بھی ورلڈ کپ میں بھرپور تیاری کے ساتھ آیا ہے۔ ویسٹ انڈین سکواڈ میں نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کرس گیل‘ کیرون پولارڈ اور آندرے رسل سے لے کر ڈیوین براوو‘ لینڈل سیمنز اور آندرے فلیچر تک تمام گھاگ کھلاڑی موجود ہیں لیکن پاکستان کے سامنے کسی کی ایک نہ چلی۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کے باوجود ویسٹ انڈین کھلاڑی اپنا رنگ نہ جما سکے اور محض تیرہ اوورز میں صرف تریسٹھ رنز ہی بنا پائے۔ سیمنز اور گیل ہی کو دیکھ لیں‘ جنہوں نے صرف اڑتیس رنز بنائے لیکن تریپن گیندیں یعنی لگ بھگ نصف اوورز استعمال کر لئے۔ آخر میں کپتان کیرون پولارڈ نے حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ انہوں نے دس گیندوں پر تیئس رنز بنائے جن میں حارث رؤف کو لگائے گئے مسلسل پانچ چوکے بھی شامل تھے لیکن بات نہیں بنی۔ ایک سو اکتیس رنز ایسا ہدف نہیں ہے کہ جس پر پاکستان بلکہ کسی بھی ٹیم کو روکا جاسکے اور ہوا بھی یہی۔ پاکستان نے صرف تین وکٹوں کے نقصان پر مذکورہ ہدف حاصل کرلیا۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ کی کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک رہا ہے اور اس وقت بھی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے لیکن پہلے چاروں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹس کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی واحد ٹیم کو نجانے کس کی ’نظر‘ لگ گئی اور گزشتہ دونوں مرتبہ پاکستان ورلڈ کپ میں بہت بُری طرح ناکام ہوا۔ رواں سال کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ پانچ سال بعد ہونے والا پہلا ورلڈ کپ ہوگا۔ اس سے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہر 2سال بعد کھیلا جاتا تھا لیکن پھر فیصلہ کیا گیا کہ ہر طرز کی کرکٹ میں سب سے بڑا ٹورنامنٹ چار سال بعد ہوگا۔ یوں دوہزار سولہ کے بعد اگلا ٹورنامنٹ دوہزاربیس میں ہونا تھا لیکن اولمپکس کی طرح ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی کورونا ونا کی نذر ہوگیا۔ یہ ورلڈ کپ پہلے آسٹریلیا میں کھیلا جانا تھا۔ میزبان بدلا تو قرعہ فال بھارت کے نام نکلا لیکن کورونا وبا نے وہاں بھی ڈیرے ڈال رکھے تھے اس لئے حتمی فیصلہ متحدہ عرب امارات کے حق میں کیا گیا۔ گوکہ عملاً میزبانی بھارت کے پاس ہی ہے لیکن میدان امارات کے استعمال ہوں گے‘ جہاں کھیلنے کا سب سے زیادہ تجربہ قومی ٹیم کے پاس ہے۔ پاکستان دوہزارسات‘ دوہزارنو‘ دوہزاردس اور دوہزار بارہ کے چاروں ابتدائی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں کم از کم سیمی فائنل تک ضرور پہنچا۔ پہلے دو میں تو فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا اور ایک میں ورلڈ چیمپیئن بھی بنا لیکن دوہزاردس میں مائیکل ہسی کی ناقابلِ فراموش اننگز نے اسے فائنل کی دوڑ سے ایسا باہر کیا کہ پھر دوبارہ کبھی فائنل تک نہیں پہنچ سکا۔ دوہزار بارہ میں حیران کن طور پر سری لنکا کے ہاتھوں شکست نے اس کیلئے فائنل کا راستہ بھی روک دیا۔ دوہزارچودہ میں بنگلہ دیش میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں پاکستان اپنے چار میں سے صرف دو گروپ میچ جیت پایا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف جس مقابلے میں ’کرو یا مرو‘ والی صورتحال کا سامنا تھا۔ اسی میں بدترین کارکردگی دکھائی اور صرف بیاسی رنز پر ڈھیر ہوکر اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ اس سے بھی بُری کارکردگی اگلے ورلڈ کپ میں دکھائی یعنی دوہزارسولہ میں ہونے والے آخری ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں۔ جہاں قومی ٹیم چار میں سے تین میچ ہار گئی۔ واحد کامیابی اپنے پہلے مقابلے میں بنگلہ دیش کے خلاف حاصل کی اور پھر بھارت‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے شکست کھا کر اس کوچہ کرکٹ سے ’بڑے بے آبرو ہو کر‘ نکلا۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کامیابی سے پاکستان کو ’پرفیکٹ آغاز‘ ملا ہے‘ جس کے بعد روایتی حریف اور مقابلوں کے میزبان بھارت سے مقابلہ ہے‘ جس میں کامیابی حقیقتاً ورلڈ کپ کا شایانِ شان آغاز ثابت ہوگی۔ اہم ترین میچ یعنی پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا چند کے فاصلے پر ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کسی بھی ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت کے میچ کو فائنل سے پہلے فائنل کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔