وفاقی حکومت کی جانب سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کیلئے ٹیکس کی شرح کم کرنے کا فیصلہ انتہائی اہم و ضروری ہے جس سے مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر طبقے کو کچھ راحت ملے۔ اس سلسلہ میں ایک خصوصی اجلاس کے دوران وزیر اعظم کو مہنگائی کے بارے بریفنگ دی گئی اور اُنہیں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے اثرات سے بھی آگاہ کیا جس کے تناظر میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر ٹیکسز کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے وفاقی وزرأ کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنانے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی اور کہا کہ وزرأ اپنے حلقوں میں مصنوعی مہنگائی پر نظر رکھیں اور مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر عوامی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اپوزیشن قائدین کے بقول عوام بڑھتی ہوئی معاشی دہشت گردی اور مہنگائی کو مزید برداشت نہیں کر سکتے اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے دورمیں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی شرح میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط مان کر اس سے قسط وار چھ ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج بھی لیا گیا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی سابقہ ادوار کے مقابلے میں بتدریج بڑھا کر آسمان تک پہنچ گئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے ساتھ مختلف نئے ٹیکسوں کی بھی بھرمار کی گئی ہے جبکہ نئے ٹیکسوں کا سلسلہ ضمنی میزانیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزی اور اشیائے خوردنی کی قلت کا بحران پیدا کر کے مہنگائی میں مصنوعی اضافہ کرنے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے مافیاز کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ بے روزگاری بھی انتہا درجے کو جا پہنچی ہے ایسے میں لازمی امر ہے کہ انتہا درجے کو پہنچی مایوسی میں سے حکومتی مخالفین کی جانب سے دلفریب نعروں پر مبنی ان کی سیاست کی بنیاد پر امید کی کرن نظر آتی ہے تو وہ اپنے دکھوں اورمسائل کے مداوا کیلئے اسی طرح اپوزیشن قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ان کی حکومت مخالف تحریک کیلئے چارہ بنیں۔ حکومتی فیصلہ سازوں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ گزشتہ دو سال سے جاری کورونا وبا جیسی اُفتاد نے مستحکم معیشتوں سمیت پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اور کورونا وبا کے سدباب کیلئے اٹھائے گئے حفاظتی و احتیاطی اقدامات (SOPs) سے عالمی سطح پر غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جن سے عہدہ برأ ہونا پاکستان سمیت ہر ملک کے لئے چیلنج ہے چنانچہ پاکستان کو بھی اسی تناظر میں اقتصادی بدحالی‘ روز افزوں مہنگائی‘ غربت‘ بے روزگاری کا سامنا ہے۔ مختلف مافیاز نے باہم گٹھ جوڑ کرکے ذخیرہ اندوزی اور قلت کے ذریعے اپنی اشیاء من مانے نرخوں پر فروخت کرنے کی جو روش اپنائی ہے اس کو روکنے کیلئے موثر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔کیونکہ منافع خور مافیاز نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جس سے اپوزیشن کو چائے کے پیالی میں طوفان اٹھانے اور دوبارہ متحد و منظم ہونے کا نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ یہ وقت حکومت کو سبق سکھانے اور سیاسی انتقام کا نہیں بلکہ مہنگائی سے نجات کیلئے حکومتی فیصلہ سازوں کی رہنمائی کرنے کا ہے۔ ماضی کی حکمراں جماعتوں کو اپنے اپنے تجربات کا عوام کے مفاد میں استعمال کرنا چاہئے تاکہ مہنگائی کی وبا سے نمٹنے میں پوری قوم یک جان و سرخرو ہو سکے۔