یہ جو سڑکیں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ جہاں ایک کو فرصت نہیں کہ وہ آگے نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ اس بھاگم دوڑی سے بہتر ہے کہ لوگ گھروں میں مقیم رہیں۔ کوئی باہر نہ نکلے بس گھر ہی میں قیام ہو۔ وہیں طعام ہو اور وہیں آرام ہو۔ کیونکہ گھر سے باہر قدم رکھنا تو پیدل ہی ہو سکتا ہے۔وگرنہ گاڑی میں تو پٹرول کی ضرورت ہو گی۔خواہ جس طرح کی گاڑی ہو۔پٹرول کا مہنگا ہونا تو اس لحاظ سے سونا ہے کہ جیسے سونا روز بروز مہنگا ہو رہاہے۔کیونکہ جب پٹرول مہنگاہوگا تو پٹرول ڈلوانے والے سوچ سمجھ کر ڈالیں گے۔ پھر گھر سے قدم باہر نکالیں گے۔ فضول کی آوارہ گردی میں ملوث ہونا اختتام ہو گا۔ جہاں کام کاج ہوگا اور پھر ضرور ی ہوگا وہیں گھر سے نکلنے کو سوچا جائے گا۔ اگر پٹرول زیادہ مہنگا کر دیا جائے تو یہ شہر کے بسنے کی ایک اور سبیل ہوگی۔ کیونکہ اس طرح بائیک رائیڈر سڑکوں کو روند نہیں سکیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں بعض آوارہ گردی کے شائقین نے شہر کے ماحول کو تاخت و تاراج کر دیا ہے۔کسی کو کسی کل قرار نہیں۔ہر سو شور کی لہریں ہیں اور شہر کا شہرمنجدھار کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔جب نہ رہے گا بانس تو کیسے بجے گی بانسری۔ سو پٹرول کو اور بھی مہنگا کر دینا چاہئے۔تاکہ اس سے فائدہ جو حاصل ہو وہ محاصل نہ ہو بلکہ شہری سکون ہو۔جو فالتو کے سڑکو ں پر گھومنے پھرنے والے ہیں وہ گھروں کی چاردیواریوں کی سب جیل میں قید ہو کر رہ جائیں گے۔باہر نکلیں گے تو خراج دیں گے اور شہرکی سڑکوں پر اودھم مچانے کے اگر قابل ہوں گے تو بہت خرچہ اٹھا کر یہ قدم اٹھائیں گے۔وگرنہ تو شہر کا سکون لوٹ آنے کا مکمل چانس موجودہے۔مگر یہ نعمت اگر مہنگی نہ ہو تو کیا ہوا۔ آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی سے سڑکوں پر سے آوارہ مزاجوں کی چھٹی ہو جائے گی۔ سو اس طرح اکانومی کٹ بھی لگ جائے گا اور ٹریفک کے حادثات میں کسی کو جسم پر کٹ بھی نہیں لگ سکے گا۔اب ویسے بھی شہری زندگی مہنگائی کے کارن زبوں حالی کا شکار ہے۔اگر اس عالم میں سرکاری سطح پر کارِ خیر کے طور پر پٹرول کو اور بھی گراں کر دیں تو یہ قوم کے بے فکرے نوجوانوں کیلئے بہت خیر کی خبر ہوگی۔ کیونکہ ان کی سرگرمیاں معطل نہ سہی مگر قلیل ہو جائیں گی۔خود ہمارا بھی سڑکوں پر گھومنے پھرنے کو ڈیڈ لاک لگ جائے گا۔ یہ جو ہم تندور پر روٹی لینے کو بائیک پر جاتے ہیں کچھ پیدل چلنا شروع کر دیں گے۔ کیونکہ پیدل مارچ کرنا صحت کیلئے ضروری ہے۔اس طرح اگر دوسرے شہری بھی پیدل پھرنے کو ترجیح دیں گے تو صحت مند ہوں گے۔ سنا ہے کہ ان دنوں سائیکل خریدنے والا جب سائیکل خریدنے پہنچا تو اس کو سخت سبکی اٹھانا پڑی۔کیونکہ وہ پٹرول کے آئے روزمہنگا ہوجانے سے بے حد تنگ جو تھا۔مگر سائیکل کانرخ پوچھا تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہاں اس نے یہ بہتر سمجھا کہ سائیکل کو چھوڑے اور پٹرول کے چند قطرے سہی بچے کے فیڈر میں ڈلوا کر لے آیا کر ے۔پھر اس نے یہ بھی سوچا کہ اپنی سرگرمیاں محدود کر دے۔ زیا دہ آنا جانا ترک کر دے۔اب تو پٹرول پمپ میں بائیک کی ٹینکی پر گرا ہواآخری قطرہ اس سے پہلے کہ ہوا کے زور پر سوکھ جائے۔کورونا سینی ٹائزر سمجھ کر ہتھیلی پر ڈال کر دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملنا رگڑنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔اس مہنگائی سے ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ جو کنجوس ہیں ان کے من کو مزید تسکین ملے گی۔پھر وہ خرچ کر کے کچھ حاصل نہ ہونے کے ڈر سے وہی رقم جتنی بھی ہے کھیسے میں ڈال کر پسِ پُشت ڈال دیں گے۔یوں قطرے قطرے سے دریا جو مل کر بنتا ہے۔تب تک تو امید ہے کہ ہمارا اپنا پٹرول ہماری اپنی سرزمین سے نکلنا شروع ہو جائے گا۔ ہم مالدار معاشرے کے لوگ تصور ہوں گے۔پھر اگر اس وقت ہمیں توفیق ملی تو ہم پٹرول کی فراوانی کے سامنے اس کی گرانی کر ترک کر کے شہرکے راستوں کو اپنے پاؤں کے نشانات سے کچلیں گے۔ گاڑی والے جنھوں نے قسطوں پر گاڑی نکلوا رکھی ہیں وہ بھی آرام سے بیٹھ جائیں گے۔ بہت ہوا تو بہت ضروری کام کرنے کو گھر کے کارپورچ سے گاڑی نکالیں گے اور جلد ہی گھر لوٹ آئیں گے۔کیونکہ گاڑی تو نکالی ہے مگر پٹرول اپنے گھر میں زمین کو بورنگ کرنے سے تو نہیں نکال سکتے۔سو ان کے گھر والوں کو بہت فائدہ ہے۔جہاں ان کا سارا دن انتظار کیاجاتا ہے۔وہ دکان اور دفتر سے سیدھا گھر پہنچیں گے۔ ٹینشن کا ماحول گھر سے دور ہو جائے گا۔سو اس لئے پٹرول کو مزید سہل الوصول نہ رہنے دیا جائے۔کیونکہ یہ بہت بہتر ہے۔پھر خیال یہ بھی آتا ہے کہ اگر یہ دانا و بینا اور چند سیانے لوگوں کی سوچ کے تحت ہوا کہ سڑکوں کے رش کو کم کرنے کی غرض سے مہنگائی کا قدم اٹھایا جائے تو اچھا ہوا ہے کہ برا نہیں ہوا۔ہائے کیا زمانہ تھا جب ہمارے گھر میں پٹرول لیٹر کی بوتلوں میں پڑا ہوتا تھا۔ جو مہمان آیا اور اس کے بائیک میں پٹرول ختم ہوتا تو ہم ایمرجنسی کی کیفیت دور کرنے کی غرض سے اس کو بطور تحفہ ایک بوتل عنایت کر دیتے۔مگر اب تو ہم اس سخاوت سے بھی گئے۔