ڈرامہ کے ہیرو کے ساتھ ہماری ہمدردیاں آخر تک رہتی ہیں کیونکہ ولن جو کچھ کرتا ہے جانتے بوجھتے کرتا ہے۔مگر ہیرو سے اگر کچھ برا ہو۔پھر اس کے ساتھ اگر برا ہو جائے تو وہ اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔وہ جان کر غلط نہیں کرتا۔اسی لئے ہم اس کو اختتام تک سپورٹ کرتے ہیں۔کلاس روم میں سٹوڈنٹ سے سوا ل کرو تو وہ جواب دینے سے شرماتا ہے۔مگر وہ جواب نہ دے تو سیکھے گا کیسے۔ اسے ڈرنا نہیں چاہئے کہ میرا جواب غلط ہوگا۔ جب غلط نہیں ہوگا تو اسے ربڑ کر کے درست کیسے لکھا جائے گا۔اس لئے غلطی یا غلطیاں وہ سیڑھیاں ہیں جن کو پاؤں تلے کر کے بندہ وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہو کر پہلی پوزیشن کا گولڈ میڈل پہنتا ہے۔ایک سٹوڈنٹ کی غلطی سے باقی کے سٹوڈنٹس کے کان بھی اصلاح کے الفاظ سے آشنا ہو ں گے۔انسان تادمِ آخر غلطی کرتا رہتا ہے۔بندہ بہت زیادہ ہوشیار ہو مگر کہیں نہ کہیں خطا پاتا ہے۔غلطی سمجھدار اور نادان دونوں سے ہوتی ہے۔اپنی اپنی غلطیاں ہیں۔پھر اپنی اپنی پشیمانیاں ہیں۔ رفاقتوں میں پشیمانیا ں تو ہوتی ہیں۔کہ دوستوں سے بھی نادانیاں تو ہو تی ہیں (احمد فراز)۔ خیبر بازار کی ایک سکول میں جانا ہوا تھا۔برآمدے سے گذر کر پرنسپل کے کمرے میں جانا تھا۔ دیواروں پراقوالِ زریں لکھے تھے۔ ایک قول بہت اچھا لگا۔ ”بہترین یاداشت یہ ہے کہ بندہ اپنی کی ہوئی نیکیاں اور دوسروں کی غلطیاں بھلا دے“۔ایک غلطی ہے مگر سو طرح سے لکھی جاتی ہے۔مگر ان جملوں میں ایک بات کنفرم ہے کہ غلطی نے ہونا ہوتا ہے۔اس لئے اپنی غلطی کو تسلیم کرلینا غلط نہیں۔اس میں انسان کی بڑائی ہے۔پھر اس پہ نادم ہونا۔بار بار غلطی کا ہوجانا۔ پھر قدرت کا بار بار معافی دینا۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ آدمی سے غلطی ایک بار نہیں سو بار ہوگی۔دوسروں کی تواتر سے کی جانے والی غلطیوں کو ساتھ ساتھ معاف کرتے جائیں تو ٹائم اچھا پاس ہوگا۔ وگرنہ تو بندہ ایک دن بھی سکون سے گذا رنہیں سکے گا۔ دوسروں کی غلطیاں یاد آئیں گی۔بندہ اس یاداشت کو لے کر اندر اندر جلتا کڑھتا رہے گا۔ اندر اندر اپنے آپ کو نوچتا کھرچتا اور کھاتا رہے گا۔آدمی غلطی کا پُتلا ہے۔کوئی یہ نہ کہے کہ مجھ سے غلطی نہیں ہوتی۔ غلطی دوبارہ ہو جاتی ہے۔غلطی کر کے تسلیم کرے معافی مانگے۔وعدہ کرے آئندہ غلطی نہیں ہوگی۔ مگر وعدہ کرنے سے زیادہ کوشش کرے۔کیونکہ وعدے اکثر اوقات پورے نہیں ہوتے۔مگر کوشش کامیاب ہو جاتی ہے۔خود لفظ غلط کو بھی اکثر بڑے لوگ اور عام لوگ بھی درست نہیں بولتے۔جلسوں ٹی وی کے ٹاک شوز میں اور نیوز کانفرنس میں یہی کچھ ہوتا ہے۔غین اور لام کو ملا کر بولتے ہیں جو غلط ہے۔پھر جو درست ہے وہ غین اور لام کو الگ الگ کر کے زبر کے ساتھ غلط بولنا ہے۔ہم لوگ اکثر الفاظ اپنی نا سمجھی کی وجہ سے غلط بولتے ہیں۔لیکن اگر دوسرا درست کروا دے تو اس کا برا بھی مناتے ہیں۔غلطی نہ ہو تو درستی کیسے ہوگی۔حرفِ غلط کو تو مٹا دیتے ہیں۔ مگر غلط آدمی کو مٹانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ ایک لفظ کو دوبار لکھ لیں تو غلطی درست کرنے کے لئے دونوں میں ایک کو مٹانا پڑتا ہے،غلطی سے بچنا چاہئے۔ مگر کہاں۔ انسان ہو اور غلطی نہ کرے۔نہ چاہتے ہوئے بھی غلطی ہو جاتی ہے۔جان بوجھ کر غلطی سے پرہیز کرنا ہے۔کارِ قضا جو غلط ہو جائے اس پرگرفت نہیں۔