پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے ہر موقع پر اِس جانب توجہ دلائی جا رہی ہے کہ ”افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لئے عالمی سطح پر ہم آہنگی ضروری ہے۔“ حال ہی میں روس میں منعقدہ افغان کانفرنس میں جس میں پاکستان سمیت تمام سٹیک ہولڈرز نے شرکت کی اِس میں بھی افغان عوام کی انسانی‘ معاشی امداد کے لئے مضبوط کوششوں پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ چین سمیت دس ممالک نے علاقائی استحکام کے لئے افغانستان میں سلامتی کے فروغ پر اتفاق کیا ہے۔ اعلامیہ میں طالبان پر اعتدال پسند پالیسیاں بنانے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ ماسکو فارمیٹ مشاورت میں پاکستان کی جانب سے تین تجاویز دی گئیں‘ ایک یہ کہ افغانستان کے لئے عالمی امداد میں فوری توسیع کی جائے۔ دوسرے یہ کہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کئے جائیں اور تیسرے یہ کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تعاون میں اضافہ کیا جائے۔ یہ حقیقت تو اب کھل کر دنیا کے سامنے آ چکی ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے ایجنڈہ کے تحت بیس سال قبل افغان دھرتی پر وارد ہونے والی امریکی نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہو چکا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد بیس سال سے جاری جنگ و جدل میں امریکی نیٹو فورسز کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے اور پسپائی اختیار نہ کرنے والے افغان طالبان کی افغانستان میں دوبارہ حکومت قائم ہو چکی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی معاونت سے خود جنگجو طالبان کے نمائندگان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنی فوجوں اور سویلینز کی افغانستان سے بحفاظت واپسی کی خاطر امن معاہدہ کیا اور افغانستان سے انخلاء کا باقاعدہ شیڈول دیا جس میں بعدازاں امریکہ کی جانب سے پس و پیش کا مظاہرہ ہوا اور اشرف غنی کی کابل حکومت کی جانب سے طالبان کو کسی صورت قبول نہ کرنے کا عندیہ دیا جانے لگا تو طالبان نے افغان حکومت اور امریکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ شروع کر دیا جس میں افغان حکومت طالبان کے سامنے فی الواقع ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور کسی سخت مزاحمت کے بغیر ہی طالبان کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس دوران افغان سکیورٹی فورسز کے لوگ بھی ہتھیار ڈال کر طالبان کے ساتھ شامل ہونا شروع ہو گئے جبکہ طالبان کو افغان دھرتی پر امریکہ کی جانب سے قائم کی گئی فوجی تنصیبات تک بھی رسائی حاصل ہو گئی اور امریکی اسلحہ اور گن شپ ہیلی کاپٹر تک طالبان کے قبضے میں آ گئے چنانچہ اس صورتحال میں امریکہ نے جلد بازی میں اور متعینہ شیڈول سے بھی پہلے افغانستان سے اپنے فوجیوں اور سویلینز کا انخلاء مکمل کر لیا۔ اس طرح امریکہ نے عملاً طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر کے افغانستان خود ان کے حوالے کر دیا چنانچہ طالبان کے افغان مسند اقتدار تک پہنچنے کے بعد افغانستان کے امور حکومت و مملکت چلانے اور وہاں بحال ہونے والے امن کو مستحکم بنانے کے لئے عالمی برادری کا طالبان حکومت کے ساتھ تعاون ضروری تھا چونکہ طالبان حکومت کی تشکیل شریعت ِاسلامیہ کے طور پر عمل میں آئی ہے اس لئے طالبان حکومت کی اندرونی اور خارجہ پالیسیاں بھی شریعت کی حکمرانی کے ماتحت تشکیل پانی ہیں۔ اس میں خواتین کو شریعت میں متعینہ حقوق ہی ملنے ہیں اور یہ خوش آئند صورت حال ہے کہ افغان خواتین نے بھی طالبان حکومت کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے خود کو شریعت کا پابند کر لیا ہے اب افغانستان کے حکومت و مملکت کے سارے معاملات طالبان حکومت نے ہی چلانے ہیں‘ اس کے لئے انہیں عالمی برادری کی جانب سے آسانیاں مہیا کی جائیں گی تو افغانستان میں بیس سال کے جنگ و جدل کے بعد بحال ہونے والے امن کو استحکام بھی ملنا شروع ہو جائے گا جو بالآخر پورے خطہ اور اقوام عالم کے لئے امن و استحکام کی ضمانت بنے گا۔ اس کیلئے بہرصورت طالبان حکومت کو عالمی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے جس کا وزیراعظم عمران خاں بھی عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں سے تقاضا کر چکے ہیں اور ”ماسکو فارمیٹ مشاورت“ میں بھی پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے افغانستان کے ساتھ تعاون بحال کرنے کا ہی تقاضا کیا گیا ہے۔ اگر طالبان کی حکومت میں واپسی کے باعث امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے افغانستان پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں برقرار رکھی جاتی ہیں اور اسی طرح بیرونی بینکوں میں موجود افغانستان کی رقوم اور فنڈز بھی منجمدرکھے جاتے ہیں تو افغانستان میں بھوک‘ قحط اور بے روزگاری کی شکل میں ایک نیا انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔