یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ برسلز میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پرہونے والے مذاکرات ملتوی ہوگئے ہیں۔ یونین کی ترجمان نبیلہ مسرالی کے مطابق اس مرحلے پر ہم اس بات کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ دوبارہ ملاقات ہوگی یا نہیں اگر ہوگی تو کب ہوگی۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس سے قبل کہا تھاکہ ایران کے سرکردہ جوہری مذاکرات کار برسلز جائیں گے جہاں جون کے بعد پہلی بار برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع ہو نی تھی۔ واضح رہے ایران اور امریکہ نے اب تک جوہری معاہدے کی مکمل پابندی کیلئے براہ راست مذاکرات سے انکار کیا ہے اور یورپی یونین سہولت کار کے فرائض ادا کررہاہے۔ اب تک ویانا مذاکرات کے چھ دور ہوئے ہیں جو جون سے معطل ہیں۔پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ ایران ابھی عالمی طاقتوں کے ساتھ ویانا میں اپنے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں اور اس کی نئی مذاکراتی ٹیم پہلے اس متن پر بحث کرنا چاہتی ہے جو وہ چند ہفتے بعد یورپین یونین کو برسلز میں پیش کرے گا۔ ماحول کا سازگار بنانے کیلئے یورپین یونین کے سیاسی ڈائریکٹر اینرک مورا نے پچھلے جمعرات کو ایران کا دورہ کیا۔امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ وہ غیر معینہ تک انتظار نہیں کرسکتے کیونکہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے قریب ہے۔صدر جو بائیڈن کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنا اورمعاہدے کو بحال کرنا ہے لیکن فریقین اس بات پر متفق نہیں کہ کن اقدامات کی ضرورت ہے اور کب۔ نئے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے مطابق ایران کو پیش رفت کا جائزہ لینے اور مذاکرات کاروں کی نئی ٹیم مقرر کرنے کیلئے وقت درکار ہے۔ روس بھی ایران پر زور دے رہا ہے کہ وہ جلد مذاکرات میں واپس آئے۔واضح رہے جولائی میں ایران اور عالمی طاقتوں میں مشترکہ جامع منصوب عمل نامی ایٹمی معاہدہ ہوا جس پر ایران، جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت ایران اپنے بیشتر جوہری پروگرام کو ختم کرنے، بین الاقوامی معائنے کیلئے اپنی سہولیات کھولنے کیلئے آمادہ ہوا۔ اس نے ایڈیشنل پروٹوکول پر عمل درآمد کرنے سے بھی اتفاق کیا جس کے تحت بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو مختصر نوٹس پر ایران میں کہیں بھی معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران سے پابندیاں ختم کردیں اور اس کے سو ارب ڈالرز کے منجمد اثاثے بحال کردئیے۔ لیکن 2018 میں امریکہ معاہدے سے دست بردار ہوا تو ایران نے 2019 میں کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو مقررہ حد سے بڑھانا شروع کردیا۔ ایران نے بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اچانک دورے اور معائنے بھی محدود کردیئے۔ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کہتے ہیں اگر ایران اپنا راستہ نہیں بدلتا تو ہم متبادل راستوں سے رجوع کیلئے تیار ہیں تاہم انہوں نے متبادل راستوں کی وضاحت نہیں کی۔ مگراسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف حملے کو خارج از مکان قرار نہیں دے رہا۔ اسرائیل، جس نے ماضی میں بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، امریکہ پر دبا ڈالتا رہا ہے کہ وہ تہران سے سختی سے پیش آئے لیکن امریکی صدرمشرق وسطی سے الگ ہونے اور چین پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی کاروائی اس خطے میں جنگ بھڑکا دے گی اور ان کا کام مشکل کردے گی۔ مبصرین کے مطابق یہ خدشہ حقیقی ہے۔ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک نئے سروے کے مطابق فیصد اسرائیلی ایران کے خلاف کاروائی کے حق میں ہیں۔ اسرائیل کے اعلی جنرل، ایوی کوچوی نے گذشتہ ماہ کہا تھا۔ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے منصوبوں کو بہت تیزکیا گیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن کہتے ہیں وہ مسٹر ٹرمپ کی طرف سے عائد پابندیوں کو صرف اسی صورت میں ختم کریں گے جب ایران جوہری پیداوار کی 2019 والی حدود پر واپس آجائے۔ ایران کا اصرار ہے کہ امریکہ کو پہلے ایران پر سے پابندیاں ہٹانی ہوں گی جبکہ امریکہ کہتا ہے تہران کو پہلے معاہدے کی خلاف ورزی بند کرنی ہوگی۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ 2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کیلئے آئندہ مذاکرات سے پہلے ایران کے خلاف پابندیاں اٹھانا امریکہ کی جانب سے سنجیدگی کا ثبوت ہوگا۔ ہم سنجیدہ ہیں۔ ہمیں دوسری طرف سنجیدگی بھی دکھائی دینی چاہیے۔ یاد رہے یورپی پونین نے 2011 اور امریکہ نے 2019 میں اسی کی دہائی میں سیاسی مخالفین کی عام پھانسیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر ابرہیم رئیسی پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ انہیں یہ پابندیاں اٹھانی ہوں گی۔ ضروری ہے کہ امریکہ اپنی طرف سے ایران سے ہر قسم کی پابندیاں ہٹائے۔دیکھا جائے تو امریکہ کو اس سلسلے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ترک کرنا ہوگا۔ جہاں تک ایران پر پابندیوں کا تعلق ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایران تیاری کر چکا ہے اور اس سلسلے میں ایران کو نئے تجارتی شراکت داروں کی شدید ضرورت ہے۔ یہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے اوروہ روس، چین اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کو مضبوط بنا کر پابندیوں کے اثرات کو بے اثر کرنے پر کام کررہاہے۔ اس نے چین اورروس کے سابق سفیر مہدی سفاری کو نائب وزیر خارجہ کے عہدے پر تعینات کیا ہے۔ وہ عرب دنیا کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے یا مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ امیرعبداللہیان نے حال ہی میں مصر، شام اور لبنان کا دورہ کیا ہے اورمتحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ عراق کی میزبانی میں سعودی عرب کے ساتھ کئی ماہ کی خفیہ بات چیت کے بعد محدود سفارتی تعلقات بھی جلد بحال ہوسکتے ہیں۔ایران اکثر آئی اے ای اے کے دہرے معیار پرغم وغصے کا اظہارکرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے چشم پوشی کئے ہوئے ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل کے پاس اس وقت تین سو سے زائد ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جو دنیا کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن امریکہ کی حمایت سے اس کا ایٹمی پروگرام جاری ہے اوروہ این پی ٹی پر دستخط کرنے سے گریزکرتا رہا ہے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ این پی ٹی میں شمولیت اور ایٹمی پروگرام پر آئی اے ای اے کی نگرانی قبول کرنے کیلئے اسرائیل کو مجبور کرے اورصرف ایران سے سختی نہ کیا کرے۔