پاکستان اور بھارت میں ’کرکٹ کا کھیل‘ صرف کھیل نہیں بلکہ جنون ہے جس نے شائقین کی اکثریت کو دیوانگی کی حد تک اپنی گرفت میں لے رکھا ہے بالخصوص جب ہم تیزرفتار کرکٹ یعنی ٹی ٹوئنٹی مقابلے اور اِس کے ورلڈ کپ کی بات کرتے ہیں تو یہ جنون سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔ ”اِس طرح تو اور بھی دیوانگی بڑھ جائے گی …… پاگلوں کو پاگلوں سے دور رہنا چاہئے (بھارت بھوشن پنت)۔“ ویسے تو بین الاقوامی مقابلوں میں انٹرنیشل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا ”ورلڈ کپ“ خاص مقام رکھتا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی مقبولیت کسی طرح کم نہیں بلکہ سنسنی خیز کھیل کے لحاظ سے ٹی ٹوئنٹی لاجواب ہے۔ سال دوہزارسات میں پہلا ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلا گیا اور اس کے بعد سے اب تک چھ میگا ایونٹس ہوچکے ہیں یعنی رواں سال ساتواں ورلڈ کپ منعقد ہورہا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کے حوالے سے پہلا ٹیسٹ میچ 1877ء میں برطانیہ اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔ اسی طرح پہلا بین الاقوامی ایک روزہ میچ بھی انہی دونوں 2 ٹیموں کے درمیان میلبورن میں 1971ء کو کھیلا گیا۔ اس پہلے ایک روزہ میچ کی بھی مزیدار تاریخ ہے۔ یہ بنیادی طور پر ٹیسٹ میچ ہی تھا لیکن بارش کی وجہ سے اس کے تین دن کا کھیل ضائع ہوگیا۔ اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ تماشائیوں کو ٹکٹ واپس کرنے کے بجائے کیوں نہ محدود اوورز کا میچ کروا دیا جائے۔ اب جب اس میچ کا آغاز ہوا تو شائقین جوق در جوق آئے اور یوں ایک روزہ کھیل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ آئی سی سی کو بھی اس بات کا اندازہ ہوا کہ اس طرح کے میچوں سے کافی پیسے کمائے جاسکتے ہیں اور یوں ان میچوں کو باقاعدہ حیثیت ملی اور اس فارمیٹ میں ورلڈ کپ کا بھی آغاز ہوگیا۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان 1992ء میں موجودہ وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی (مختصر فارمیٹ) کرکٹ کا آغاز بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ برطانیہ کی کاؤنٹی کرکٹ اور ٹیسٹ میچوں میں شائقین کی تعداد جب کم ہونے لگی تو برطانوی کرکٹ بورڈ نے طے کیا کہ کیوں نہ شام پانچ بجے کے بعد بیس اوورز کے میچ منعقد کروائے جائیں تاکہ آفس ورکرز بھی آکر میچ دیکھ سکیں۔ یوں تجربے کے طور پر دو کاؤنٹیز سرے اور وارکشائر کے درمیان 2003ء میں پہلا میچ کھیلا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کرکٹ کے میدان تماشائیوں سے بھرنے لگے اور یہ اقدام برطانوی کرکٹ بورڈ کیلئے یہ کمائی کا اچھا ذریعہ ثابت ہوا۔ ظاہر ہے کہ ان حالات سے باخبر ہونے کے بعد عالمی سطح پر کرکٹ کے نگران ادارے نے بھی اس فارمیٹ کو باقاعدہ طور پر اپنا لیا کیونکہ اس میں ایک مقبول ’برانڈ‘ بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ سیٹلائیٹ ٹی وی کی مقبولیت اور اسپانسرشپ کی بھرمار نے اب ٹی ٹوئنٹی کو آئی سی سی کا خاص ایونٹ بنادیا ہے۔ پہلا بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچ 2004ء میں نیوزی لینڈ اور برطانوی خواتین کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کھیلا گیا تھا جس میں نیوزی لینڈ نے فتح حاصل کی جبکہ مردوں کا پہلا بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی مقابلہ دوہزارپانچ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا جس میں آسٹریلیا نے فتح حاصل کی تھی۔ سال 2007ء میں منعقد ہونے والا پہلا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا تھا۔ اس ورلڈ کپ میں بھارت پاکستان کو صرف پانچ رنز سے شکست دے کر فائنل جیتا تھا۔ پاکستان میں پہلا ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ڈومیسٹک سطح پر 2004ء میں کھیلا گیا جسے فیصل آباد وولوز نے اپنے نام کیا۔ بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کی بات کی جائے تو پاکستان کا شمار بھی ٹی ٹوئنٹی کے عالمی چیمپئنز میں ہوتا ہے۔ پاکستان نے یہ اعزاز 2009ء کے ورلڈ کپ میں یونس خان کی قیادت میں حاصل کیا تھا۔ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی موجودہ عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم ہے جس نے دوہزارسولہ کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں برطانیہ کو چار وکٹوں سے شکست دی تھی۔ یوں ویسٹ انڈیز دو مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والی واحد ٹیم بن گئی۔ موجودہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی بھارت کے پاس تھی لیکن مختلف وجوہات کے باعث اسے متحدہ عرب امارات اور عمان منتقل کردیا گیا۔ ان وجوہات میں ایک اہم وجہ کورونا وبا اور اس حوالے سے کھلاڑیوں اور ٹیموں کے اعتراضات تھے۔ یوں بھارت کو ٹورنامنٹ کا میزبان برقرار رکھتے ہوئے ٹورنامنٹ کو امارات منتقل کیا گیا۔ جاری ٹورنامنٹ میں کل سولہ ٹیمیں شامل ہیں جن میں سے آٹھ پہلے ہی ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرچکی ہیں دیگر آٹھ ٹیموں کو کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑا اور انہیں گروپ اے اور بی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کوالیفائنگ راؤنڈ میں گروپ اے سے سری لنکا اور نمیبیا کی ٹیموں نے گروپ میچوں کیلئے کوالیفائی کیا اور گروپ بی سے سکاٹ لینڈ اور بنگلہ دیش نے پیش رفت کی‘ پاک بھارت کرکٹ مقابلہ جنگ کے میدان کی طرح ہوتا ہے اِس میں شکست کھانے والی ٹیم کو شدید تنقید بلکہ جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرکٹ کے شائقین کو چاہئے کہ وہ ہار اور جیت کے فلسفے کو سمجھیں جو کھیل کا حصہ ہوتا ہے اور جذبات پر قابو رکھیں۔ اصل ضرورت اچھے کھیل کی ہے اور یہی اصول متقاضی ہے کہ کھیل سے محظوظ ہوا جائے۔