ناکردہ گناہ

افغانستان کے داخلی حالات جن مشکلات اور خارجہ تعلقات جس نوعیت کے بحران سے دوچار ہیں اُس میں عالمی تعاون کی ہر اُمید اور وعدہ اہمیت رکھتا ہے اُور اِنہی کی بنیاد پر افغانستان کی خارجہ پالیسی اور مستقبل کے تعلقات کا تعین ہوگا۔ اِن حالات میں پاکستان پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے اور ایسی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں چاہتا جس سے افغانستان میں پیدا ہونے والی قیام امن کا موقع ہاتھ سے جاتا رہے۔ اختتام پذیر ہونے والے ہفتے کے دوران پیش آئے واقعات لائق توجہ ہیں جن کے بارے میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے بروقت ایک وضاحت بھی جاری کی ہے کیونکہ ایک سے زیادہ امریکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اِس سلسلے میں پاکستان سے بات چیت کا عمل جاری ہے‘ تاہم پاکستان کی جانب سے بروقت اور پرزور تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کا ایسا کوئی بھی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ امریکی سینیٹ کے سربراہ نے رواں برس مئی میں بیان دیا تھا کہ امریکی انخلأ کے بعد افغانستان میں القاعدہ‘ داعش اور دیگر عسکریت پسند مسلح گروہ نئے سرے سے منظم ہو سکتے ہیں‘ جن سے نمٹنے کیلئے امریکہ کو ’کوئیک رسپانس فورس‘ خطے میں رکھنا ہو گی۔ اس بیان کے بعد کہا جانے لگا کہ امریکہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے اس معاملے پر بات چیت کر رہا ہے۔ا س سلسلے میں وسطی ایشیائی ممالک سے بھی بات چیت ہوئی ہے تاہم اسکے نتائج کیا سامنے آتے ہیں ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے کھل کر کہا ہے کہ امریکہ کو اڈے یا کوئی اور سہولت دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔اور دیکھا جائے تو یہ پالیسی بالکل ملکی مفادات کے مطابق ہے۔ماضی میں امریکہ کو اگر کوئی سہولت امریکہ کو دی بھی گئی تو اس کا فائدہ امریکہ کو زیادہ ہوا ہے اور اس کے بدلے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا اسے اربوں کے مالی اور ہزاروں افراد کے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس دوران امریکہ نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی امدادی رقم روکنا شروع کر دی۔ سال دوہزاراٹھارہ تک افغان جنگ کے دوران تقریباً بیس لاکھ امریکی اور نیٹو پروازوں نے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کی اور اگر اِن پروازوں یعنی پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی امریکہ سے قیمت وصول کی جاتی تو یہ رقم ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہوتی لیکن امریکہ نے سہولت سے فائدہ اٹھانے کے کے باوجود بھی پاکستان کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا اور پاکستان کے مقابلے بھارت کی دوستی کو زیادہ اہمیت دی۔ افغانستان کے محاذ پر جبکہ پاکستان کی کوششوں سے امریکہ طالبان مذاکرات ممکن ہوئے اور اب طالبان برسراقتدار آ کر قیام امن پر آمادہ ہیں تو امریکہ نہ تو طالبان کی حکومت کو تسلیم کر رہا ہے اور نہ ہی افغانستان کے منجمند اثاثے بحال کرنے جیسے مطالبات کو خاطرخواہ اہمیت دے رہا ہے۔ کسی بھی عالمی طاقت کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ دہرا معیار اختیار کرے۔ سردست اور بلاتاخیر عالمی برادری کو افغان عوام کی مشکلات کا احساس ہونا چاہئے کہ جنہیں پہلے جنگ اور اب امن کی خواہش میں بھوک افلاس و غربت کی شکل میں ”ناکردہ گناہوں کی سزا“ مل رہی ہے۔