ٹک ٹاک سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جاتی ہے سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔سب سے زیادہ بدنام ہے۔ٹک ٹاک پر تو کوئی چائے کے کھوکھے والا بھی اپنا ٹیلنٹ بتلا سکتا ہے۔ہر کس و ناکس کو بھرپور آزادی ہے کہ وہ اپنے فن کا مظاہر ہ اس مختصر ترین دورانیہ کی مودی میں کر ے۔مگر اس کے استعمال سے نوجوان اور کم عمرانتہائی رسک کی حالت میں موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ یہ ویب معاشرے کے چہرے پر ایک عیب کی طرح نمودارہے۔جس نے ہمارے معاشرے کا بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ جو ٹک ٹاک ہے نا۔ بس موت کاکنواں ہے۔تفریح کی طرف جاتا ہواسیدھا راستہ تھا۔ ویڈیو شیئرپلیٹ فارم۔ دیکھنے والے اداس لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی بکھیرتا ہوا۔مگر اس کو موت کا کنواں بنا دیا گیا ہے۔ کتنے لوگ اس میں گر چکے ہیں۔ پھر کتنے تو اس کے باہر کوئی کہا ں گرا اور کوئی کہاں۔کتنی جوانیاں اور کھلتی کلیاں مٹی سے بوجھل ہو چکی ہیں۔ان کے لواحقین کے چہرے آنسوؤں سے تر ہیں۔سو دفعہ ٹک ٹاک بناؤ اور دوبارہ ایک سو ایک مرتبہ بناؤ۔ مگر اپنی جان کے ساتھ مت کھیلو اور خطرناک مقامات پر ٹک ٹاک بنانا ترک کر دو۔آتی ہوئی ٹرین کے آگے پٹری پر بیٹھ کر اس لڑکے نے پچھلے کیمرے کے ذریعے ٹک ٹک بنانے کی کوشش کی مگر اتنی دیر میں ریل گاڑی اس کے سر پر پہنچ گئی مگر اس کے بعد کیا ہوا وہ یہاں لکھنے کو من نہیں کر رہا۔ایک اور خاتون ٹک ٹاک بناتی ہوئی مین ہول میں جا گری۔ ایک لڑکی دریا کنارے بیٹھی ہوئی ٹک ٹاک پر واہی تباہی کرتی پاؤں پھسلا تو دریا میں ڈوب گئی۔ ایک اور کیس میں سردریاب کے کنارے دوستوں نے شرطیں لگائیں۔ٹک ٹاک کیمرے آن تھے۔ ایک دوست کنارے سے کودپڑا تاکہ تیر کر دوسرے کنارے جا لگے۔مگر پار اترنا اس کی قسمت میں نہیں تھا۔ تیرنے والے کو دوست ڈوبتا ہوا دیکھ کر سوائے شور مچانے اور رونے دھونے کے اورکچھ نہ کر سکے۔کتنے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔بچے اور بڑے دونوں لڑکیاں اور لڑکے دونوں۔یہ تو نوجوانوں کیلئے پیش کاری کا ایک پلیٹ فار م ہے۔گھر کے انداز و اطوار سیکھنے سکھانے کے بہانے مل جاتے ہیں۔ بچوں پر ماں باپ کو بھرپور نگاہ رکھنا چاہئے۔ اندازہ ہوجاتا ہے کہ گھر میں ہمارا کون سا بچہ ٹک ٹاک بنانے کا شوقین ہے۔اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔کیونکہ وہ شہرت حاصل کرنے اور ناظرین کو متاثر کرنے کیلئے کوئی بھی الٹی پلٹی حرکت کرکے انھیں حیران کرتے ہوئے ان سے لائک لینے کا خواہش مند ہوگا۔ خود نہیں چاہے گا مگر انجانے میں اس کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ٹک ٹاک سٹار کے ساتھ بہت خطرنا ک واقعات پیش آ چکے ہیں۔ مگر یہ لوگ باز نہیں آتے۔سوچتے ہیں اگلے کو کچھ ہوگیا ہے ہوگیا ہوگا۔ مگر مجھے کچھ نہ ہوگا۔ اس طرح وہ بعض اوقات خطرہ مول لے کر کسی نہ کسی مووی کو موبائل میموری میں قید کر دیتے ہیں۔مگر اس رسک میں وہ اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک تو دیکھنے والوں کے اداس ہونٹوں پر ہنسی کے بکھر جانے کا نام ہے۔ مگرکوئی آپ کو دیکھ کر افسوس کے ہاتھ ملے رو پڑے یہ انتہائی غیر اخلاقی بات ہے۔پابندی لگی توبہت اچھا تھا۔ مگر ہٹا دی گئی۔ٹک ٹاک غلط مواد کو پیش کرنے کیلئے نہیں۔ چین نے اپنی اس ویب سائٹ پر کنٹرول کرنے کو لاکھوں صارفین کے اکاؤنٹ ہٹا دیئے تیرہ سال کے بچوں پر تو خاص پابندی لگا دی۔مگر یہ نئی پود پابندیاں کہاں مانتی ہے۔اس ریفریش ہونے کی ویب پر تفریح سے زیادہ مخصوص طبقہ اپنی سی سوچ کو آگے بڑھاتا ہے۔۔ٹک ٹاک سے دولت تو ہاتھ نہیں آتی مگر شہرت ضرور ہاتھ لگتی ہے۔مگر وہ بھی کسی کسی کو۔اس وقت میرے نوکِ زباں چند نام ہیں جو لکھنے سے گریزاں ہوں۔ مگر وہ مختلف انداز سے اپنا سٹائل بدل کر راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچ گئے ہیں۔ جدید ترقی نے فائدہ بھی بہت دیا۔مگر اس کو بھونڈے طریقے پر استعمال کر کے لوگوں نے لوگوں کو ساتھ خود کو جانی نقصان بھی پہنچایا۔اب تو چاہنے والوں نے ٹک ٹاک سٹار کے ساتھ تصویریں بھی بنانا شرو ع کردی ہیں۔ چین نے بنایا اور اب خود پریشان ہے۔کیونکہ امریکہ سے بھی اس کو مخالفت کا سامناہے۔ٹک ٹاک کمپنی نے لاکھوں موویاں ضائع کر دیں۔ مگر دوسرے دن لاکھوں او ربن گئی ہوں گی۔ بچے بالے سمجھ نہیں رکھتے۔بڑے الگ طور پر پریشان کرتے ہیں۔خیر مجھے ان نوجوانوں کے بارے میں لکھنا ہے جو ساتھ اپنی جان بھی اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔ بہت کم تو جان بوجھ کر اور زیادہ انجانے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔