ایٹمی سانحہ کا خوف

جدید دنیا کو درپیش تباہ کن چیلنجز ماحولیاتی تبدیلی اور پچھلے سال فروری سے جاری کوویڈ19 کی وبا نے ایٹمی سانحہ کے خطرے کو تھوڑا پس منظر میں دھکیل دیا ہے مگر خطرہ بدستور موجود ہے۔اگر چہ دنیا دہشت گرد گروہوں سے تا حال جوہری ہتھیار دور و محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہے مگر چند ایک ممالک میں نفرت اور انتقام کو بطور ریاستی پالیسی اختیار کرنے والی ابنارمل پارٹیاں، مثلا بھارت میں بے جی پی، حکمران ہے جو کسی بھی لمحے ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم استعمال کروا سکتی ہیں جس سے ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی اور خاکم بدہن دنیا پلک جھپکنے میں نیست و نابود ہوجائے گی۔یاد آرہا ہے 2002 میں ترجمان القرآن نامی رسالے میں جوہری ہتھیاروں پر ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں اس وقت اتنے جوہری ہتھیار ہیں جن سے پوری دنیا پچیس سو مرتبہ تباہ ہو سکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریبا تیرہ ہزار جوہری ہتھیار ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق امریکہ کے پاس 5500، روس 6255، چین 350، برطانیہ 225، فرانس 290 اور بھارت، پاکستان، اسرائیل اورشمالی کوریا کے پاس 460 جوہری ہتھیار ہیں۔ ان میں سے چار ہزار جوہری ہتھیار لانچ کیلئے تیار، باقی سٹور میں محفوظ اور کچھ تلف کرنے کے منتظر ہیں۔امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر 7 اگست اور ناگاساکی پر 9 اگست 1945 کو جو ایٹم بم گرائے جن سے فوری طور پر بالترتیب 80 ہزار اور 70 ہزار افراد ہلاک ہو گئے اور بعد میں تابکاری سے چار لاکھ مزید افراد مرگئے تھے، ان کے مقابلے میں اب جوہری ہتھیار چھوٹے مگر زیادہ تباہ کن ہیں اور اب تو بدرجہا تباہ کن ہائیڈروجن بم بھی ایجاد کرلئے گئے ہیں۔امریکہ نے 2023  کے آخر تک تمام کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر وہ اور دیگر طاقتیں زیادہ مہلک جوہری ہتھیار تلف کرنے کیلئے ابھی آمادہ نہیں۔جوہری عدم پھیلا کی جہاں تک بات ہے، برازیل سے سویڈن تک اکتیس ممالک نے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سترہ ممالک نے ہتھیاروں کا باضابطہ پروگرام شروع کیا اور آج نو ریاستوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ روس اور امریکہ نے باہمی معاہدوں کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ 1986 کے ستر ہزار سے کم کرکے تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار کردیا ہے تاہم مستقبل قریب میں دنیا سے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ جوہری ہتھیاروں کی صحیح روک تھام کیلئے سب ممالک کو سی ٹی بی ٹی یعنی تجربات پر پابندی کے جامع سمجھوتے اور این پی ٹی یعنی جوہری عدم پھیلا کے سمجھوتے پر دستخط کرنے اور موجود جوہری اسلحے کو تلف کرنے کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اب تک 190 ممالک این پی ٹی کے رکن ہیں جن میں پانچ ممالک امریکہ، روس، برطانیہ فرانس اور چین جوہری طاقتوں کے طور پر رکن ہیں کیونکہ یہ یکم جنوری 1967 یعنی این پی ٹی کے نفاذ سے پہلے جوہری طاقت بن چکے تھے۔ جبکہ باقی ممالک غیر جوہری رکن ہیں۔ اسرائیل، پاکستان اور بھارت ابھی ”این پی ٹی“ میں شامل نہیں ہوئے کیوں کہ انہیں جوہری طاقت کے طور پر شامل نہیں کیا جارہا اور پھر انہیں اپنی تنصیبات بھی بین الاقوامی معائنے کیلئے کھولنی ہوں گی۔ شمالی کوریا 2003 میں اس معاہدے سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ چار ممالک یوکرین، قازقستان، بیلا روس اور جنوبی افریقہ اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرکے این پی ٹی کے غیر جوہری رکن بن چکے ہیں۔جوہری ہتھیاروں کو جدید اور مزید مہلک بنانے کی کوشش بھی جاری ہیں۔ امریکہ آئندہ بیس سالوں میں اس مد میں ایک کھرب ڈالر خرچ کرے گا۔ اس سال مارچ میں برطانیہ نے ایٹمی ہتھیار کم کرنے کی پالیسی چھوڑنے اور ان کی تعداد ایک سو اسی سے دو سو ساٹھ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے 1958 میں برطانیہ کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی اور پچھلے دنوں امریکہ اور برطانیہ نے آکس معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو آٹھ ایٹمی آبدوزیں اورجدید ٹام کروز میزائل ٹیکنالوجی دینے کی حامی بھری۔ یوں آسٹریلیا جوہری آبدوز رکھنے والا ساتواں ملک بن جائے گا۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ بھی جوہری معاہدہ کیا ہے۔اگر جوہری ہتھیار ختم نہیں ہوتے تو دوسری ریاستیں بھی اس طرف راغب ہوں گی۔ شمالی کوریا کی جوہری صلاحیت کے بعد جنوبی کوریا اور ایران کی مبینہ جوہری سرگرمیوں کے پیش نظر سعودی عرب، ترکی اور ملائشیا بھی اس کی طرف آ سکتے ہیں۔ امریکہ نے چین کے حملہ کی صورت میں تائیوان کا دفاع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دونوں جوہری ممالک کے مابین ممکنہ تصادم دنیا کیلئے تباہ کن ہو گا 2017 میں اقوام متحدہ میں ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل پابندی کے معاہدہ کا ایک مسودہ سامنے آیا تھا جسے اقوامِ متحدہ کے سو سے زیادہ رکن ممالک کی حمایت ملی مگر بڑی ایٹمی قوتوں کی مخالفت کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ایٹمی سانحے سے بچنے کی حکمت عملی میں جوہری طاقتوں کے باہمی تعلقات، مزید ریاستوں کو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ پھیلاؤ اور جوہری دہشت گردی کے امکانات و خطرات پر نظر رکھنا ہوگی۔ پچھلے ہفتے امریکی چیف آف نیول سٹاف کے دفتر میں کام کرنے والے میری لینڈ کے ایک جوڑے کو مبینہ طور پر غیر ملکی حکومت کو جوہری راز فروخت کرنے کا الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔جوہری ہتھیاروں کو سدِ جارحیت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے حامی کہتے ہیں ان کی وجہ سے روایتی جنگوں کا خطرہ ٹل گیا ہے اور دنیا اب تک تیسری عالمی جنگ سے بچی ہوئی ہے۔