صحافت: ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں؟

پشاور کے ایوان ہائے صحافت (پریس کلب) سے وابستہ صحافیوں کیلئے وقتاً فوقتاً تربیتی نشستوں کے اہتمام میں حالیہ اضافہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد و مختلف رہا جس کے شرکا کی پریشانیوں میں شاید یہ جان کر مزید اضافہ ہو گیا ہو گا کہ دہشت گردی کا ایک منفی اثر یہ بھی مرتب ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا (بشمول پشاور) میں صحافی نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہیں لیکن اِس بارے خاطرخواہ خواندگی نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اِن نفسیاتی عارضوں کے معلوم ہونے پر بھی علاج معالجے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اِس بارے میں صورتحال کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہوئے نفسیاتی علوم (سائیکالوجی) سے وابستہ محترمہ گلشن تارہ نے کہا کہ ”خیبرپختونخوا کے 70فیصد سے زائد صحافی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ کونسلنگ (نفسیاتی مشاورت) کی ضرورت ہے اور ایسا نہ ہونے کے باعث (اندیشہ ہے کہ) نفسیاتی مسائل کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوگا۔ نفسیاتی مشاورت (psychology counseling) یکساں ضروری ہے بصورت دیگر مریضوں کی اپنی صحت اور جان کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔“ محترمہ تارہ نے اِس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ”معاشرے میں ہر انسان کسی نہ کسی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے اور یہ ذہنی دباؤ بہت سی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ نفسیاتی عارضوں کو معمولی نہ سمجھا جائے اور جسمانی صحت کی طرح نفسیاتی صحت کا بھی خیال رکھتے ہوئے متعلقہ معالج (نفسیاتی امور کے مستند معالج) سے رجوع کیا جائے۔“ صحافیوں کی استعداد کار اور معلومات میں اضافے کی جاری کوششوں میں نفسیاتی الجھنوں اور ذہنی صحت کے حوالے آگاہی کی یہ نشست اپنی جگہ اہم تھی جس کے شرکا کو کم سے کم جس ایک بات کے بارے میں یقینا علم ہو چکا ہے کہ ”ذہنی طور پر پریشان‘ ہر شخص ’پاگل‘ نہیں ہوتا اور اگر ذہنی پریشانیوں کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔“ اِسی طرح نفسیاتی امراض کیا ہوتے ہیں اور دیگر امراض کی طرح نفسیاتی عارضوں کی بھی علامات ہوتی ہیں جن میں نیند کے معمولات تبدیل ہونا‘ نیند کی کمی‘ سماجی تعلقات اور روئیوں میں تبدیلی‘ لڑائی جھگڑے‘ دوسروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا‘ بچوں کو ڈانٹنا‘ دھتکارنا اور کسی عمومی بات کا بتنگڑ بنانے جیسی تحاریک کسی عارضے کی نشاندہی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نفسیاتی عارضے میں مبتلا شخص نہ صرف اپنی ذات میں بے سکون ہوتا ہے بلکہ وہ گردوپیش میں دیگر افراد کیلئے بے سکونی کا باعث بن رہا ہوتا ہے اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ہر سطح پر نفسیاتی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے۔ توجہ طلب ہے کہ نفسیاتی الجھنیں معاملات کے بارے میں سوچنے‘ سمجھنے یا روزمرہ کے عمومی فیصلے کرنے یا کسی نتیجے تک پہنچنے اور برداشت جیسی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں اور اگر کوئی بھی شخص اپنے اندر ایسی تبدیلیاں محسوس کرے کہ اُسے بات بے بات پر غصہ آئے یا طبیعت میں اشتعال کا غلبہ رہے تو تجویز یہی کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں نفسیاتی امراض کے مستند معالجین سے رجوع کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہ بات صحافیوں کی نشست میں زیرغور نہیں آئی لیکن ’غربت‘ جملہ بیماریوں کی جڑ ہے جبکہ نفسیاتی عارضوں کا ایک سبب ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش کا استعمال اور ڈاکٹروں کی جانب سے تجویز نہ ہونے کے باوجود ازخود ڈاکٹری یا حکیمی ادویات لینا ہے!جسم کے دیگر اعضا کی نسبت انسان سب سے زیادہ دماغ اور نفسیات کے بارے میں جاننے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہی پہلی و بنیادی غلطی ہے۔ نفسیاتی الجھنیں سمجھ آ جائیں گی لیکن اگر اِن کے پیدا ہونے کے عمل کو جان لیا جائے۔ اِس مرحلہئ فکر پر ٹھہر کر ایک مثال جان لیں کہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا شخص ہو جو غصے کے مضر اثرات کے بارے میں نہ جانتا ہو لیکن اِس خواندگی کے باوجود اُسے غصہ آتا ہے اور جب غصہ اُس کی برداشت سے اکثر زیادہ (بے قابو) ہو جائے تو ایسی صورت کو طب کی اصطلاح میں نفسیاتی عارضہ کہا جاتا ہے اِس مرحلہئ فکر پر انسانوں (یقینا بشمول صحافیوں) کو اِس بات پر بھی سوچنا چاہئے کہ آخر وہ ذہن کے بے لاگ سوچنے اور اِس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل سے دوچار کیوں ہیں اور دیگر اعضائے جسمانی کے مقابلے آخر اِنہیں صرف ذہن و نفسیات ہی سے کیوں مسائل (الجھنیں) درپیش ہیں؟۔