مفادات کی جنگ

افغانستان میں قیام ِامن کی جملہ کوششوں کی کامیابی کیلئے بین الاقوامی برادری اور عالمی اِداروں کو پاکستان کی جس قدر ضرورت محسوس ہو رہی ہے یہ ”کھلا راز“ ہے لیکن امریکہ پاکستان سے جس نوعیت کا تعاون چاہتا ہے وہ ماضی کی طرح قطعی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں اور یوں افغانستان میں اسلحے کی دوڑ کے بعد مفادات کی جنگ شروع ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے استعمال ہو جس سے پاکستان واضح طور پر انکار کر چکا ہے۔ بیس سال پہلے پاکستان نے اقوام متحدہ کے کہنے پر امریکہ اور اِس کے اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد سکیورٹی اہلکار اور شہری شہید ہوئے اور پاکستان کا کھربوں ڈالر کا الگ سے نقصان ہوا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس صورتحال میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کا پوری طرح ساتھ نہیں دیا بلکہ الٹا پاکستان پر الزام تراشیاں بھی کیں کہ وہ افغانستان میں حالات کو سنبھلنے نہیں دے رہا۔ امریکہ کی طرف سے الزامات کا جاری سلسلہ اُن عالمی کوششوں کے دھچکا ثابت ہو سکتا ہے جو افغان سرزمین پر قیام امن کیلئے جاری ہیں۔ افغانستان میں بیس برس تباہی پھیلانے والے مغربی ممالک نے تاحال اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ کیا یہ واقعات تاریخ میں محفوظ نہیں کہ جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان سے بھاگنا پڑا تو انہیں اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیا کہ وہ پاکستان سے کہیں کہ انہیں محفوظ راستہ فراہم کرے۔ پاکستان نے بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی اور اتحادی فوجوں کو افغانستان سے انخلا میں مدد مہیا کی لیکن انخلأ مکمل ہوتے ہی امریکی ایوانوں میں ایک بار پاکستان کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ کسی بھی طرح اعتماد کے قابل نہیں اور وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی حد تک دوسروں کو استعمال کرتا ہے۔ افغانستان میں فوجی کاروائی کیلئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی خواہش اسی سلسلے کی کڑی ہے اور پاکستان اگرچہ ’انتہائی ناممکن (ایبسلوٹی ناٹ)‘ کہہ چکا ہے لیکن یہ واضح انکار امریکہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔علاقائی سلامتی اور انسداد ِدہشت گردی سے متعلق تعاون یقینا ایسے معاملات ہیں جن پر پاکستان کو امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے لیکن افغانستان میں ایک اور فوجی مہم جوئی کیلئے امریکہ کو پاکستانی کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینا بالکل الگ اور انتہائی حساس معاملہ ہے۔ ماضی میں پاکستان اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ تعاون کر کے جو بھاری نقصان اٹھا چکا ہے‘ اُسے پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے واضح موقف اپنایا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے وہ امن میں پارٹنر ہے جنگ میں نہیں۔حکومت نے کہاہے کہ پاکستان پرامن و مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے۔افغانستان میں انسانی بحران  سے بچنے اور امن و سلامتی کیلئے عالمی برادری کردارادا کرے۔ افغان عوام کی بہبود کیلئے معاشی وسائل کی فراہمی کے ساتھ منجمد مالی اثاثے بحال کئے جائیں۔  اس وقت امریکہ ایک بار پھر افغانستان میں طاقت کے ذریعے حکومت قائم کی کوشش اگر کرتا ہے توایسی مسلط کردہ حکومت کے فائدے بہت ہی کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان نے ہر فورم پر یہی مؤقف اختیار کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے آگے بڑھ کر افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام کیلئے تعاون کریں کیونکہ پُرامن اور مستحکم افغانستان ہی سب کیلئے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔پاکستان کی توجہ اس وقت افغانستان میں امن کے استحکام اور وہاں پر انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی پر مرکوز ہے اور اس کوشش میں ہے کہ دنیا کے باقی ممالک بھی افغانستان میں انسانی المیے کو جنم لینے سے روکیں ایسے میں بھارت اور امریکہ کی پالیسی یکسر خطے کے مفادات کے خلاف نظر آرہی ہے اگر چہ بھارت افغانستان میں موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی گومگو کا شکار ہے تاہم امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے وہ خطے کے امن کے لئے خطرناک ثابت ہورہا ہے جبکہ پاکستان روس اور چین سمیت کئی ممالک افغانستان میں تعمیر وترقی کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔